مسیح اور مہدی کا زمانہ اور بزرگان

(۱) صاحب کشف بزرگ حضرت نعمت اللہ ولی (۷۲۹تا ۸۳۴ھ)

آپ نے اپنے مشہور فارسی قصیدہ میں آخری زمانہ کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ آپ نے لکھا:۔

غین ری سال چوں گزشت ازسال

بوالعجب کاروبار می بینم

مہدی وقت و عیسیٰ دوراں

ہر دو را شاہسوار می بینم

ترجمہ: جب غین رے یعنی ۱۲۰۰ سال گزر جائیں گے اس وقت مجھے عجیب و غریب واقعات ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ مہدی وقت اور عیسیٰ دوراں ہر دو کو میں شاہسوار ہوتے دیکھتا ہوں۔ (اربعین فی احوال المہدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید صفحہ۲ و ۴ مطبوعہ ۱۲۶۸ھ)

واضح ہو کہ مسیح اور مہدی چودھویں صدی کے سر پر آنے والے ایک ہی موعود کے دو لقب ہیں جیسے فرمایا:

’’لَاالْمَھْدِیُّ اِلَّا عِیْسٰی بنُ مَرْیَمَ‘‘ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدۃ الزمان)

یعنی مسیح ابن مریم کے علاوہ کوئی مہدی نہیں ہوگا۔

(۲) حضرت حافظ برخوردار صاحب (۹۸۵ تا ۱۰۹۳ھ)

پچھے ہک ہزار دے گزرے ترے سو سال

حضرت مہدی ظاہر ہوسی کرسی عدل کمال

(قلمی نسخہ ’’انواع‘‘ صفحہ۱۴ از حضرت حافظ برخودار صاحب)

(۳) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۱۱۴ھ تا ۱۱۷۵ھ)

عَلَّمَنِیْ رَبّیِ جَلَّ جَلَالُہٗ اَنَّ القَیَامَةَ قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَھْدِیُّ تَھَیَّا لِلْخُرُوْجِ (التفہیمات الالٰہیہ جلد ۲ صفحہ ۱۶۰ تفہیم نمبر ۱۴۶ شاہ ولی اللہ اکیڈمی دہلی)

ترجمہ: خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب آ چکی ہے اور مہدی کا ظہور ہوا چاہتا ہے۔

پھر مولانا نواب صدیق حسن خان صاحب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے متعلق لکھتے ہیں۔

’’حضرت شاہ ولی اللہ نے امام مہدی علیہ السلام کی تاریخ ظہوری لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جو کہ حروف ابجد کے لحاظ سے ایک ہزار دو سو اڑسٹھ ؁۱۲۶۸ھ ہے‘‘۔ (حجج الکرامۃ فی آثار القیامہ صفحہ۴ ۳۹ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہجہانی بھوپال)

(۴) حضرت شاہ عبدالعزیز (؁۱۱۵۹ھ تا ؁۱۲۳۹ھ)

’’بعد بارہ سو ہجری کے حضرت مہدی کا انتظار چاہیئے اور شروع صدی میں حضرت کی پیدائش ہے‘‘۔ (اربعین فی احوال المہدیین مرتبہ محمد اسماعیل شہید صفحہ آخر مطبوعہ ؁۱۲۶۸ھ)

(۵) الشیخ علی اصغر البرو جروی (پیدائش ؁۱۲۳۱ھ)

’’اندر صرغی اگربمانی زندہ ملک و ملک و ملت و دین برگردد‘‘

کہ سال صرغی میں اگر زندہ رہا تو ملک و ملک و دین میں ایک انقلاب آ جائے گا۔ صرغی کے اعداد بحساب ابجد ۱۳۰۰ بنتے ہیں۔ (نورالا نوار از شیخ علی اصغر صفحہ ۲۱۵مطبوعہ؁۱۳۲۸ھ)

(۶) مولانا نواب صدیق حسن خان(؁۱۲۴۸ھ تا ؁۱۳۰۷ھ)

i ۔

’’بعض مشائخ اور اہل علم کے نزدیک امام مہدی کا ظہور بارہ سو سال ہجری کے بعد ہو گا لیکن تیرہ سو سال سے تجاوز نہیں کرے گا۔‘‘ (حجج الکرامہ صفحہ ۳۹۴ مطبع شاہجہانی بھوپال مطبوعہ ۱۲۹۱ ؁ھ)

ii ۔ پھر لکھتے ہیں

’’اب مدت دَہ ماہ کی ختم تیرھویں صدی کو باقی ہے پھر ۱۳۰۱ھ اور ۱۸۸۴ء سے چودھویں صدی شروع ہو گی اور نزول عیسیٰؑ و ظہور مہدی و خروج دجال اوّل صدی میں ہو گا۔‘‘ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۴۱۔ ۴۲ از نواب صدیق حسن خان مطبع محمدی لاہور ۱۳۱۲ ھ)

(۷) ابوالخیر نواب نورالحسن خان

آپ نے ؁۱۳۰۱ھ میں لکھا:۔

’’ظہور مہدیؑ کا شروع تیرھویں صدی پر ہونا چاہیئے تھا مگر یہ صدی پوری گئی مگر مہدی نہ آئے اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے۔۔۔شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل رحم و کرم فرمائے۔ چار چھ برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جاویں۔‘‘ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۲۲۱ از نواب نورالحسن خان مطبع مفید عام ؁۱۳۰۱ھ)

(۸) علامہ سید محمد عبدالحی لکھنوی

آپ نے؁۱۳۰۱ھ میں لکھا:۔

’’اب چودھویں صدی آ گئی ہے۔ چھ ماہ گزر گئے ہیں۔ اس صدی کا یہ پہلا سال ہے دیکھیئے کون سے طاق سال میں تشریف لاتے ہیں۔‘‘ (حدیث الغاشیہ عن الفتن الخالیہ و الغاشیہ صفحہ ۳۵۰ مطبع سعید المطابع بنارس؁۱۳۰۹ھ)

(۹) حضرت حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس امروہہ

آپ نے ؁۱۳۰۶ھ میں لکھا:۔

’’پس ان (امام مہدی) کی تشریف آوری اکیس سال بعد اس ؁۱۳۰۶ھ سے ہونے والی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘(کواکب درّیہ از حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس امروہہ صفحہ ۱۵۵ مطبع سید المطابع امروہہ)

(۱۰) مولانا عبدالغفور مصنف ’’النجم الثاقب‘‘

آپ نے؁۱۳۱۰ھ میں لکھا:۔

’’البتہ زمانہ بعشت مہدی کا یہی ہے‘‘ (النجم الثاقب حصہ دوم صفحہ ۲۳۳ ابوالحسنات محمد عبدالغفور مطبوعہ پٹنہ)

(۱۱) خواجہ حسن نظامی (؁۱۲۹۶ھ تا ۱۳۷۴ ؁ھ )

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جو آثار اور نشانات مقدس کتابوں میں مہدی آخر الزمان کیلئے بیان کئے گئے ہیں وہ آج کل ہم کو روز روشن کی طرح صاف نظر آ رہے ہیں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زمانہ ظہور خیر البشر بعد از رسول حضرت محمد بن عبداللہ مہدی آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام قریب آ گیا۔‘‘ (کتاب الامر۔ امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض صفحہ ۳ از خواجہ حسن نظامی ؁۱۹۱۲ء)

انتظار کی ان گھڑیوں میں جب کہ امام مہدی کے ظہور کی تمام نشانیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ (؁۱۸۳۵ء تا ؁۱۹۰۸ء) نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح و مہدی ہوں جس کے ظہور کی پیشگوئیاں قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں موجودہیں اور بزرگان امت جس کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی سچائی کیلئے وہ عظیم الشان آسمانی نشان چاند سورج گرہن بھی ظاہر فرما دیا جسے آنحضرتﷺ نے سچے مہدی کی نشانی قرار دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا:۔

’’ہمارے مہدی کی سچائی کے دو نشان ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے وہ کسی کی سچائی کیلئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان کے مہینے میں چاند کو (اس کی مقررہ تاریخوں میں سے) پہلی رات اور سورج کو (اس کی مقررہ تاریخوں میں سے) درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا اور جب سے اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا یہ دو نشان ظاہر نہیں ہوئے۔‘‘ (دارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف والکسوف)

چنانچہ عین چودھویں صدی کے سر پر چاند گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۱۳‘۱۴‘۱۵) میں سے پہلی رات یعنی تیرہ رمضان ؁۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۳ مارچ ؁۱۸۹۴ء کو اور سورج گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۲۷‘۲۸‘۲۹) میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ رمضان بمطابق ۶۔اپریل ؁۱۸۹۴ء کو گرہن لگا۔ اور حضرت مرزا صاحب نے بڑی شان اور تحدی کے ساتھ اپنی سچائی میں اس نشان کو پیش کرتے ہوئے لکھا۔

’’ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کیلئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کیلئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا۔۔۔میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جب کہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک شخص کی تصدیق کیلئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کے ظہور کیلئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی‘‘۔(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی گواہی

سرائیکی علاقہ کے ایک مردِ باصفا برگزیدہ خدا حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف ضلع …