حضرت بانی جماعت احمدیہؑ نے ابتداء میں اپنی طرف نبی کا لفظ منسوب کیوں نہیں کیا؟

ایک اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں جب شروع دعویٰ سے نبیوں کی تمام شرائط پائی جاتی تھیں تو آپ انکار کیوں کرتے رہے۔ اور بعد میں انہی شرائط پر نبوت کا دعویٰ بھی کیا توبعد میں وہ کونسی باتیں پیدا ہو گئیں جن کی بناء پر نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔

جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں جواب

”سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف ایک نہایت چھوٹی سے بات سے پیدا ہوا ہے اور بہت سی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں کہ ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں۔ اس تمام اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ دو مختلف اوقات میں نبی کی دو مختلف تعریفیں کرتے رہے ہیں۔

1901ء سے پہلے آپ نبی کی اور تعریف کرتے تھے اور بعد میں آپ نے جب اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی پر غور فرمایا اور قرآن کریم کو دیکھا تو اس سے نبی کی تعریف اور معلوم ہوئی چونکہ جو تعریف نبی کی آ پ پہلے خیال کرتے فرمایا کرتے تھے اس کے مطابق آپ نبی نہ بنتے تھے اس لئے باوجود اس کے کہ سب شرائط نبوت آپ میں پائی جاتی تھیں آپ اپنے آپ کو نبی کہنے سے پرہیز کرتے تھے اور اپنے الہامات میں جب نبی کا نام دیکھتے اس کی تاویل کرلیتے اور حقیقت سے ان کو پھیر دیتے کیونکہ آپ جب اپنے نفس پر غور فرماتے تو اپنے اندر وہ باتیں نہ دیکھتے تھے جن کا انبیاء میں پایا جانا آپ ضروری خیال فرماتے تھے لیکن بعد میں جب آپ کو الہامات میں بار بار نبی اور رسول کہا گیا اور آپ نے اپنی پچھلی تیئس سالہ وحی کو دیکھا تو اس میں برابر ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا تھا پس آپ کو اپنا عقیدہ بدلنا پڑا اور قرآن کریم سے آپ نے معلوم کیا کہ نبی کی تعریف وہ نہیں جو آپ سمجھتے تھے بلکہ اس کے علاوہ اور تعریف ہے اور چونکہ وہ تعریف جو قرآن کریم نبی کی کرتا ہے اس کے مطابق آپ نبی ثابت ہوتے تھے اسلئے آپ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا۔

نبی کی وہ تعریف جس کے رو سے آپ اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ نبی وہی ہو سکتا ہے جو کوئی نئی شریعت لائے یا پچھلی شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا یہ کہ اس نے بلا واسطہ نبوت پائی ہو اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو اور یہ تعریف عام طورپر مسلمانوں میں مسلم تھی۔ چونکہ انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ اس وقت تک کسی کام کو نہ شروع کرتے ہیں نہ چھوڑتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ آئے اس لئے اسی احتیاط انبیاء سے کام لے کر حضرت مسیح موعودؑ بھی اسی عقیدہ پر قائم رہے کہ نبی میں مذکورہ بالا تین باتیں پائی جانا ضروری ہیں اور چونکہ آپ میں ان باتوں میں سے ایک بھی نہ پائی جاتی تھی اسلئے آپ اپنے الہامات کی یہ تاویل فرماتے کہ نبی سے مراد محدث ہے اور آپ کا درجہ محدثیت کا ہے نہ کہ نبوت کا۔

اور نبی آپ کا نام صرف بعض جزئی مشابہتوں کی وجہ سے رکھ دیا گیا ہے یا صر ف لغت کے معنوں کے لحاظ سے کیونکہ نبوت کے معنی خبر دینے کے ہیں۔ پس جو شخص خبر دے وہ جزئی طورپر نبی کہلا سکتا ہے اور رسول کا نام پا سکتا ہے۔ لیکن بعد میں آپ نے معلوم کیا کہ نبی کے لئے شرط نہیں کہ وہ ضرور شریعت جدیدہ لائے یا بعض پچھلے حکم منسوخ کرے یا بلاواسطہ نبوت پائے بلکہ اس کے لئے اور شرائط ہیں جو آپ میں دعوائے مسیحیت کے وقت سے پائی جاتی ہیں اسلئے آپ نے اپنے آپ کو نبی کہنا شروع کر دیا اور اس کے بعد کبھی اپنے نبی ہونے سے انکار نہیں کیا۔ اگر کیا تو صرف اس بات سے کہ میں کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں اور نہ ایسا نبی ہوں کہ میں نے بلا واسطہ نبوت پائی ہے۔

پس سارا اختلاف نبوت کی تعریف کے اختلاف سے پیدا ہوا ہے جب تک آپ نبی کی یہ تعریف کرتے رہے کہ اس کے لئے شریعت جدیدہ لانا یا بلاواسطہ نبی ہونا شرط ہے تب تک تو آپ اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے رہے اور گو ان باتوں کا اقرار کرتے رہے جو نبی ہونے کی اصلی شرائط تھیں اور جب آپ نے معلوم کیا کہ نبی کی شرائط کوئی اور ہیں وہ نہیں جو پہلے سمجھتے تھے اور وہ آپ کے اندر پائی جاتی ہیں تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اقرار کیا۔ چنانچہ حقیقۃ الوحی کی مذکورہ بالا تحریر (اس تحریر کا اصل حوالہ آخر پر ملاحظہ کریں۔ناقل)سے بھی یہ امر ثابت ہے کیونکہ اس میں آپ لکھتے ہیں کہ

میں پہلے تو مسیح سے اپنے آپ کو ادنیٰ خیال کرتا رہا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ نبی ہے اور میں غیر نبی۔ لیکن بعد میں جب بار بار مجھ پر وحی نازل ہوئی اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا تو مجھے اپنا عقیدہ بدلنا پڑا۔ اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ نبی کے نام سے تو حضرت مسیح موعود کو براہین کے زمانہ سے یاد کیا جاتا تھا پس صریح طور سے نبی کا خطاب دیا گیا کہ یہ معنی تو ہو نہیں سکتے کہ آپ کو پہلے نبی کا خطاب نہ دیا گیا تھا بعد میں دیا گیا اس لئے فضیلت کا عقیدہ بدل دیابلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ پہلے بھی نبی کے نام سے آپ کو پکارا تو جاتا تھا لیکن آپ اس کی تاویل کرتے رہتے تھے لیکن بار بار الہامات میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول کے نام سے پکارا تو آپ کو معلوم ہوا کہ آپ واقعہ میں نبی ہی ہیں غیر نبی نہیں۔ جیسا کہ پہلے سمجھتے تھے اور نبی کا لفظ جو آپ کے الہامات میں آتا ہے صریح ہے قابل تاویل نہیں۔

پس اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو نبی کا خطاب نیا دیا گیا بلکہ یہ مطلب ہے کہ بار بار کی وحی نے آپ کی توجہ کو اس طرف پھیر دیا کہ تیئس سال سے جو مجھ کو نبی کہا جار ہا ہے تو یہ محدث کا دوسرا نام نہیں بلکہ اس سے نبی ہی مراد ہے اور یہ زمانہ تریاق القلوب کے بعد کا زمانہ تھا اور اس عقیدہ کے بدلنے کا پہلا ثبوت اشتہار ’ایک غلطی کا ازالہ‘ سے معلوم ہوتا ہے جو پہلا تحریری ثبوت ہے ورنہ مولوی عبدالکریم صاحب کے خطبات جمعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ 1900ء سے اس خیال کا اظہار شروع ہو گیا تھا گو پورے زور اور پوری صفائی سے نہ تھا چنانچہ اسی سال میں مولوی صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرسل الہٰی ثابت کیا اور لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ والی آیت کو آپ پر چسپاں کیا اور حضرت مسیح موعودؑ نے اس خطبہ کو پسند بھی فرمایا ہے اور یہ خطبہ اسی سال کے الحکم میں چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ پورا فیصلہ اس عقیدہ کا 1901ء میں ہی ہوا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ چونکہ ابتداءً نبی کی تعریف یہ خیال فرماتے تھے کہ نبی وہ ہے جو نئی شریعت لائے یا بعض حکم منسوخ کرے یا بلاواسطہ نبی ہو اس لئے باوجود اسکے کہ وہ سب شرائط جو نبی کے لئے واقع میں ضروری ہیں آپ میں پائی جاتی تھیں آپ نبی کا نام اختیار کرنے سے انکار کرتے رہے اور گو ان ساری باتوں کا دعویٰ کرتے رہے جن کے پائے جانے سے کوئی شخص نبی ہو جاتا ہے لیکن چونکہ آپ ان شرائط کو نبی کی شرائط نہیں خیال کرتے تھے بلکہ محدث کی شرائط سمجھتے تھے اس لئے اپنے آپ کو محدث کہتے رہے اور نہیں جانتے تھے کہ میں دعوے کی کیفیت تو وہ بیان کرتا ہوں جو نبیوں کے سوا اور کسی میں پائی نہیں جاتی اور نبی ہونے سے انکار کرتاہوں لیکن جب آپ کو معلوم ہوا کہ جو کیفیت اپنے دعوے کی آپ شروع دعویٰ سے بیان کرتے چلے آئے ہیں وہ کیفیت نبوت ہے نہ کہ کیفیت محدثیت۔ تو آپ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا اور جس شخص نے آپ کے نبی ہونے سے انکار کیا تھا اس کو ڈانٹا کہ جب ہم نبی ہیں تو تم نے کیوں ہماری نبوت کا انکار کیا۔تمہارا یہ فرض تھا کہ بتاتے کہ ایسا دعویٰ نہیں کیا جس سے اسلام کو منسوخ کر دیا ہو یا آنحضرت ﷺ سے الگ ہو کر نبوت پائی ہو ورنہ نبوت کا دعویٰ ضرور کیا ہے۔

جو کچھ میں نے اوپر لکھا ہے یہ میرا خیال ہی نہیں بلکہ واقعہ ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات سے ثابت ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ 1899ء کے ایک خط میں جو الحکم1899ء میں چھپ چکا ہے نبی کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:۔

”مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفی ﷺ کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ خاتم الانبیاء اور قرآ ن شریف خاتم الکتب ہے۔“ (الحکم جلد3 نمبر29۔ 1899ء)

اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ 1901ء سے پہلے آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ اسلام کی اصطلاح کی رو سے نبی وہی ہو سکتا ہے جس میں مذکورہ بالا تین باتوں میں سے کوئی پائی جائے یعنی

(1)وہ جدید شریعت لائے۔

(2) بعض احکام شریعت سابقہ منسوخ کرے۔

(3) یا بلاواسطہ نبوت پائے۔

اور چونکہ یہ باتیں آپ میں پائی نہ جاتی تھیں اس لئے آپ بالکل درست طور پر اپنے نبی ہونے سے انکار کرتے تھے ہاں چونکہ لغت میں نبی کے لئے ان شرطوں میں سے کوئی شرط مقرر نہیں اسلئے آپ یہ فرما دیتے تھے کہ میرا نام صرف لغوی طور پر نبی رکھا گیا ہے اور اس کی یہ وجہ تھی کہ لغت میں جو شرائط نبی کی پائی جاتی تھیں وہ آپ اپنے اندر موجود پاتے تھے یعنی

(1)کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ

(2)انذار و تبشیر سے پر امور غیبیہ کا اظہار

(3) اور خدا تعالیٰ کا نبی نام رکھنا ۔لیکن اسلامی اصطلاح کو اس تعریف کے خلاف سمجھ کر (کیونکہ عام مسلمانوں کا یہی عقیدہ تھا اور انبیاء انکشاف تام تک عام عقیدہ پر قائم رہتے ہیں) آپ باوجود سب شرائط نبوت کے موجود ہونے کے اور ان کے پائے جانے کا اقرار کرنے کے اپنے آپ کو نبی نہ سمجھتے تھے۔ مگر بار بار کے الہامات نے آخر آپ کی توجہ کو نبی کے حقیقی مفہوم کی طرف پھیرا اور آپ کے دل پر پورے طور پر امر واقع کا انکشاف ہوا اورقرآن کریم کو بھی آپ نے عام لوگوں کے عقیدہ کے خلاف پایا۔ تو اس سے پہلے عقیدہ کو ترک کر دیا۔“ (حقیقۃالنبوة حصہ اول۔انوار العلوم جلد2۔ص445-449)

حقیقۃ الوحی کا حوالہ :۔

“اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے۔ اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہرہوتا تو میں اُس کو جزئی فضیلت قرار دیتا ؔ تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اِس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔” (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 153تا154)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں مختصر تشریح

حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ نبوت کے اقرار و انکار میں خود تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں :۔

’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اور میرا یہ قول کہ ’’من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب‘‘ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔ ہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے اور ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ میں باوجود نبی اور رسول کے لفظ کے ساتھ پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بِلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شامل حال ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ ‘‘ (اشتہا ر ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد18 صفحہ210,211)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…