’’خاتم الخلفاء‘‘ کا ذکر قرآن پاک میں

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔ ’’پس قرآن شریف میں جس کا نام خاتم الخلفاء رکھا گیا ہے اسی کا نام احادیث میں مسیح موعود رکھا گیا ہے اور اسی طرح سے دونوں ناموں کے بارے میں جتنی پیشگوئیاں ہیں وہ ہمارے ہی متعلق ہیں‘‘۔ )ملفوظات جلد 5 صفحہ 554( اس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ بات قرآن میں کہیں نہیں لکھی۔

حضرت مسیح موعودؑنے سورۃ النور کی آیت سے خاتم الخلفاء کا ثبوت دیا ہے

یہ عبارت جس پر اعتراض کیا گیا ہے اگر اس سے ما قبل کا مضمون دیکھا جائے تو اس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہوئےصاف لکھا ہے کہ سورۃ النور میں آخری زمانہ میں ایک خلیفہ کے آنے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ جس طرح حضرت عیسیٰ ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے امت موسویہ کے خاتم الخلفاء  تھے اسی طرح آپؑ نبی کریم ﷺ کے بعد خاتم الخلفاء ہیں۔سورۃ النور میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ  (النور 56)

تم مىں سے جو لوگ اىمان لائے اور نىک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کىا ہے کہ انہىں ضرور زمىن مىں خلىفہ بنائے گا جىسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلىفہ بناىا اور اُن کے لئے اُن کے دىن کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کىا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کى خوف کى حالت کے بعد ضرور اُنہىں امن کى حالت مىں بدل دے گا وہ مىرى عبادت کرىں گے مىرے ساتھ کسى کو شرىک نہىں ٹھہرائىں گے اور جو اُس کے بعد بھى ناشکرى کرے تو ىہى وہ لوگ ہىں جو نافرمان ہىں ۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریر جس پر اعتراض کیا گیا ہے وہ سیاق و سباق کیساتھ حسب ذیل ہے۔آپ ؑ فرماتے ہیں:

’’یادررکھو کہ موعود کے آنے کی کل علامات پوری ہوگئی ہیں ۔ طرح طرح کے مفاسد نے دنیا کو گندہ کردیا ہے خود مسلمان علماء اوراکثر اولیا ء نے مسیح موعود کے آنے کا یہی زمانہ لکھاہے کہ وہ چودھویں صدی میں آئے گا۔ حُجج الکرامہ (مصنف: نواب صدیق حسن خان صاحب۔ ناقل)میں بھی اسی چودھویں صدی کے متعلق لکھا ہے اور کوئی بھی نہیں جو اس صدی سے آگے بڑھا ہو۔ تیرھویں صدی سے تو جانوروں نے بھی پناہ مانگی تھی اورلکھا ہے کہ اب چودھویں صدی مبارک ہوگی ۔ اس قدر متفقہ شہادت کے بعد بھی جو کہ اولیاء اوراکثر علماء نے بیان کی ۔ اگر کوئی شبہ رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ قرآن شریف میں تدبر کرے اورسورة النور کو غور سے مطالعہ کرے ۔دیکھو جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو برس بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تھے اسی طرح یہاں بھی آنحضرت ﷺ کے بعد چودہویں صدی ہی میں مسیح موعود آیا ہے اور جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سلسلہ موسوی کے خاتم الخلفاء تھے۔ اسی طرح ادھر بھی مسیح موعود خاتم الخلفاء ہوگا۔

اسلام اس وقت اس بیمار کی طرح تھا جس کی زندگی کا جام لبریز ہوچکا ہو۔ اسلام پر ظلم کیا گیا اور بڑی بے رحمی سے دشمن چاروں طرف سے اپنے پورے ہتھیاروں سے اس کو نیست ونابود کرنے کے واسطے مسلح وتیار ہوکر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔اسلام اس وقت مردہ ہوچکا تھا اوراندرونی اور بیرونی حملوں سے نیم جان ۔ اسلام کی شمع کا اب آخر ی وقت تھا اوراس کی گردن پر بڑی بے رحمی سے چھری پھیری جارہی تھی ۔اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)(ترجمہ :یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ناقل)کس وقت کے لئے کیا گیا تھا ؟کیا ابھی کوئی اور مصیبت بھی رہ گئی تھی جو اسلام پر آنی باقی ہو؟یادرکھو حفاظت سے اوراق کی حفاظت ہی مراد نہیں بلکہ اس کی تشریح ایک حدیث میں ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ قرآن شریف دنیا سے اٹھ جاوے گا۔ ایک صحابی  نے عرض کیا کہ لوگ قرآن کو پڑھتے ہوں گے تو اٹھ کیسے جاوے گا ؟فرمایا کہ میں تو تمہیں عقلمند خیال کرتا تھا مگر تم بڑے بیوقوف ہوکیا عیسائی انجیل نہیں پڑھتے ؟اورکیا یہودی توریت نہیں پڑھتے ؟قرآن شریف کے اٹھ جانے سے مراد یہ ہے کہ قرآن شریف کا علم اٹھ جاوے گا اورہدایت دنیا سے نابود ہوجاوے گی ۔ انوار اوراسرار قرآنیہ سے لوگ بے بہرہ ہوجاویں گے اورعمل کوئی نہ کریگا ۔

قرآن جس کے سکھانے کو آیا ہے لوگ اس راہ کو ترک کردیں گے اوراپنی ہواوہوس کے پابند ہو جاویں گے ۔ جب یہ حال ہوگا تو ابنائے فارس میں سے ایک شخص آوے گا اور وہ دین کو از سرنوواپس لائے گا اور دین کو اورقرآن کو ازسر نوتازہ کرے گا۔ قرآن کی کھوئی ہوئی عظمت اوربھولی ہوئی ہدایت اورثر یا پرچڑھ گیا ہو ایمان دوبارہ دنیا میں پھیلاوے گا۔ ۔۔۔

غرض قرآن شریف سے اوراحادیث نبویہ ﷺ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس امت میں آخری زمانہ میں ایک خلیفہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہے اوراس کے علامات اورنشانات بھی بتادیئے گئے ہیں ۔ہمیں مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ ہے ۔ اب ہر شخص کا جو خدا اور رسول سے پیارکرتا ہے اوراپنے ایمان کو سلامت رکھتا چاہتا ہے فرض ہے کہ اس معاملہ میں غورکرے کہ آیا ہم نے جو دعویٰ کیا ہے سچا ہے کہ جھوٹا ۔ خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کے ساتھ خدائی نشان ہوتے ہیں ۔ صرف نرازبانی دعویٰ قابل پذیرائی نہیں ہوتا۔

منجملہ اورعلامات کے جو ہمارے آنے کے واسطے اللہ اور رسول کی کتابوں میں مندرج ہیں ایک اونٹوں کی سواریوں کا معطل ہوجانا بھی ہے ۔چنانچہ اس مضمون کو قرآن شریف نے بالفاظ ذیل تعبیر کیاہے وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر:5)(ترجمہ:اور جب دس ماہ کی گابھن اونٹنیاں بغیر کسی نگرانی کے چھوڑ دی جائیں گی۔ناقل)اورحدیث نبوی ﷺ میں اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَیُتْرَکُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا۔ (ترجمہ :اور جوان اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور ان پر سوار ہو کردوڑایا نہیں جائے گا۔ناقل)

اب سوچنے والے کو چاہئیے کہ ان امور میں جو آج سے تیرہ سوبرس پہلے خدااوراس کے رسول کے منہ سے نکلے اوراس وقت وہ الفاظ بڑی شان اورشوکت سے پورے ہوکر اپنے کہنے والوں کے جلال کا اظہار کررہے ہیں ۔دیکھئے اب اس پیشگوئی کے پوراہونے کے کیسے کیسے سامان پیدا ہورہے ہیں حتیٰ کہ حجاز ریلوے کے تیار ہوجانے پر مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے سفر بھی بجائے اونٹ کے ریل کے ذریعہ ہواکریں گے اور اونٹنیاں بیکار ہوجاویں گے ۔

رہی یہ بات کہ ان پیشگوئیوں کو مسیح موعود کے لفظ سے کیا تعلق ہے کیونکہ قرآن شریف میں تومسیح موعود کا نام کہیں نہیں آ یا ۔ سواس کے واسطے یادرکھنا چاہیئے کہ ہم خاتم الخلفا ء ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اورخاتم الخلفاء کاقرب قیامت کے وقت ظہور ہونے کا وعدہ قرآن شریف میں موجود ہے ۔پھر ہمیں باربار بذریعہ الہام الہٰی اس امر کی بھی اطلاع دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بھی ہمارا ہی نام رکھا ہے جس کے آنے کے متعلق احادیث میں وعدہ تھا۔ یادرکھو کہ جو شخص احادیث کو ردی کی طرح پھینک دیتا ہے وہ ہرگز ہرگز مومن نہیں ہوسکتا کیونکہ اسلام کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے کہ جو بغیر مدد احادیث ادھورا رہ جاتا ہے ۔ جوکہتا ہے کہ مجھے احادیث کی ضرورت نہیں وہ ہرگز مومن نہیں ہوسکتا ۔ اسے ایک دن قرآن کو بھی چھوڑنا پڑے گا۔

پس قرآن شریف میں جس شخص کا نام خاتم الخلفا ء رکھا گیا ہے اسی کانام احادیث میں مسیح موعود رکھا گیا ہے اوراسی طرح سے دونوناموں کے متعلق جتنی پیشگوئیاں ہیں وہ ہمارے ہی متعلق ہیں ۔ خلیفہ کہتے ہیں پیچھے آنے والے کو ۔ اورکامل وہ ہے جو سب سے پیچھے آوے ۔ اورظاہر ہے کہ جو قرب قیامت کے وقت آوے گا وہی سب سے پیچھے ہوگا۔ لہٰذا وہی سب سے اکمل اورافضل ہوا۔ صرف تغیر الفاظ ہی ہے ۔ قرآن شریف نے خلیفہ کے لفظ سے پکارا ہے اور حدیث میں اس کو مسیح موعود کے نام سے نامزد کیا گیا ہے ۔ (ملفوظات جلد 5ص 552تا554)

ایک دوسرے موقع پر حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔

’’ضالین سے نصاریٰ بالاتفاق مراد ہیں اور آخر قرآن شریف میں بھی شیطان کا ذکر کیا , جو اصل دجّال ہے اور ایسا ہی سورۂ نور کی آیت استخلاف میں مسیح موعود خاتم الخلفاء کی پیشگوئی کی اورا سی طرح سورۂ تحریم میں صراحت کے ساتھ ظاہر کیا کہ اس امت میں بھی ایک مسیح آنے والا ہے کیونکہ جب مومنوں کی مثال مریم کی سی ہے تو اس امت میں کم ا ز کم ایک شخص تو ایسا ہو جو مریم صفت ہو اور مریم میں نفخ روح ہو کر مسیح پیدا ہو توا س مومن میں جب نفخ روح ہو گا تو خو د ہی مسیح ہو گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2ص32)

پس اگر قرآن کریم پر تدبر کیا جائے تو اس میں  خاتم الخلفاء کا ذکر واضح طور پر موجود  ہے ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…