حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ انبیاء علیھم السلام سے رشتہ عقیدت توڑ کر اپنا گرویدہ کرنا ان کا نصب العین تھا۔چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کا آغوش مادر میں ہمکلام ہونااس پر گراں گزرا تواپنے بیٹے کا ان سے تقابل کرتے ہوئے لکھا:حضرت مسیح نے تو صرف مہد ہی میں باتیں کیں مگراس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انبیاء کے بارہ میں کیا عقیدہ ہے ؟

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبیاء کے بارہ میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔

سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر

لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے

                        (قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 456)

ایک دوسرے موقع پر فرمایا:

’’ انبیاء علیہم السلام طبیب رُوحانی ہوتے ہیں اِس لئے روحانی طور پر ان کے کامل طبیب ہونے کی یہی نشانی ہے کہ جو نسخہ وہ دیتے ہیں یعنی خدا کا کلام۔ وہ ایسا تیر بہدف ہوتا ہے کہ جو شخص بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اس نسخہ کو استعمال کرے وہ شفا پا جاتا ہے اور گناہوں کی مرض دور ہو جاتی ہے اور خدا ئے تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ جاتی ہے اور اس کی محبت میں دل محو ہو جاتا ہے  ۔‘‘

            (چشمہ ٔ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 135)

فرمایا:۔

’’  وہ زمین پر خدا کے قائم مقام ہوتے ہیں اس لئے ہر ایک مناسب وقت پر خدا کی صفات اُن سے ظاہر ہوتی ہیں اور کوئی امر اُن سے ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ خدا کی صفات کے برخلاف ہو۔ ‘‘

 (چشمہ ٔ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 296)

معترضہ عبارت کی کا جواب

جہاں تک پیش کردہ اعتراض کا تعلق ہے تواگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رقم فرمودہ ساری عبارت پڑھی جائے تو حقیقت حال کھل کر سامنے آجاتی ہے اور اعتراض کی بھی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی اور الہام کے طور پریہ کلام اس کا میں نے سنا۔ اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللہِ وُاُصِیْبُہٗ ۔ یعنی اب میرا وقت آگیا ۔ اور میں اب خدا کی طرف سے اور خدا کے ہاتھوں سے زمین پر گروں گا ۔ اور پھر اسی کی طرف جاؤں گا۔ ‘‘

اس کے بعد آپ نے فرمایا :

’’یہ عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح نے تو صرف مہد میں ہی باتیں کیں مگر اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں۔‘‘

                                                                        (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 217)

اس پوری عبارت سے ظاہر ہے کہ اس بچے کا جو ماں کے پیٹ میں ہے ہر گز اس طرح بولنا مراد نہیں جس طرح ایک چلتا پھرتابچہ اپنی ظاہری زبان سے بولتا ہے بلکہ یہ ایک الہام تھا جو خدا تعالیٰ نے اس بچہ کی روح کی طرف سے حکایتاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل فرمایا۔ آپ کا یہ فقرہ توجہ کے لائق ہے کہ :

’’خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی ‘‘

            ہر صاحب بصیرت انسان یہ سمجھتا ہے کہ کشف و الہام عالم روحانیت سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ہر بار ظاہری دنیا کے پیمانوں سے ناپنے کا نتیجہ بعض اوقات تمسخر کی صورت میں نکلتا ہے ۔

            پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو بیان فرمایا کہ اس بچے نے پیٹ میں دو دفعہ باتیں کیں ۔ یہ ظاہری زبان سے کلام نہیں تھا بلکہ آپ نے پہلے کھول کر یہ بیان فرما دیا تھا کہ

            ’’خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی لڑکے کی مجھ میں روح بولی‘‘

جہاں تک اس بچے کی روح کے کلام کو حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے کلام سے ملانے کا تعلق ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مکمل بیان کے پیش نظر اس کا محض یہ مقصد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو مہد میں کلام کرتے تھے وہ بھی خدا تعالیٰ کی عجیب قدرتوں میں سے تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس بچے کی پیدائش سے قبل اس کی روح کا بولنا بھی اسی خدائے ذوالعجائب کی عجیب قدرتوں کا ایک کرشمہ ہے ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…