اعتراض: حضرت بانی جماعت احمدیہؑ نے خود کو درود شریف میں حصہ دار بنا لیا

پہلی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر جب درود پڑھا جاتا ہے تو آپﷺ کی آل پر بھی وہ درود پڑھا جاتا ہے جیسا کہ ہے’’ وعلیٰ آلِ محمد ﷺ‘‘۔ پس اس رو سے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپﷺ کی آل میں شامل ہیں، اس لئے آپؑ بھی اس درود میں شامل ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’ بعض بے خبر ایک یہ اعتراض بھی میرے پر کرتے ہیں کہ اس شخص کی جماعت اس پر فقرہ علیہ الصلٰوۃ والسلام اطلاق کرتے ہیں اور ایسا کرنا حرام ہے اس کا جواب یہ ہے کہ میں مسیحِ موعود ہوں اور دوسروں کا صلٰوۃ یا سلام کہنا تو ایک طرف خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس کو پاوے میرا سلام اس کو کہے اور احادیث اور تمام شروحِ احادیث میں مسیحِ موعود کی نسبت صدہا جگہ صلٰوۃ اور سلام کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے ۔پھر جبکہ میری نسبت نبی علیہ السلام نے یہ لفظ کہا۔ صحابہؓ نے کہا بلکہ خدا نے کہا تو میری جماعت کا میری نسبت یہ فقرہ بولنا کیوں حرام ہو گیا۔خودعام طور پر تمام مومنوں کی نسبت قرآن شریف میں صلوٰۃ اور سلام دونوں لفظ آئے ہیں۔ ‘‘

(اربعین نمبر 2 ۔روحانی خزائن جلد 17صفحہ 349)

جہاں تک رسول اللہ ﷺ پر خدا کے درود کا تعلق ہے تووہ مومنوں پر درود سے بہت ارفع اور اعلیٰ ہے اور حسبِ مراتب اپنی ایک الگ شکل رکھتا ہے ۔ چنانچہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

’’ دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مردِ خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمّدصلّی اللہ علیہ آلہ وسلّم ۔ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓٮِٕکَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِىِّؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا‏  ‘‘(الاحزاب :57)

 (چشمہ معرفت ۔ روحانی خزائن۔ جلد 23صفحہ 301تا302)

پھر آپ ؑ فر ماتے ہیں ۔

’’ درود شریف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی برکات اپنے نبی کریم ؐ پر نازل کرے ۔۔۔ اور اس کی بزرگی اور اس کی شان وشوکت اِس عالم اور اُس عالم میں ظاہر کرے ۔۔۔۔۔۔ اور اس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے۔ ‘‘

 (مکتوباتِ احمد یہ۔جلد اوّل صفحہ 13 ۔بحوالہ رسالہ درود شریف )

آپ ؑ نے اپنی بیعت میں داخل ہونے والوں کے لئے یہ شرط بھی رکھی کہ ’’بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجّد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درُود بھیجنےاور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

(اشتہار 12 جنوری 1889ء۔ بحوالہ رسالہ درود شریف صفحہ 72)

اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ ؑ نے فرمایا

’’درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے ۔ اللّٰہمّ صلّ علٰی محمّدٍ وّعلٰی آل محمّدٍ کما صلّیت علَی ابراہیم وعلَی آلِ ابراہیم انّک حمیدٌ مجیدٌ اللّٰھمّ بارک علٰی محمّدٍ وعلٰی آلِ محمّدٍ کما بارکتَ علٰی ابراھیمَ وعلٰی آلِ ابراہیمَ انّک حمیدٌ مجیدٌ

جو الفاظ ایک پرہیزگار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے۔ اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرّک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے ۔ یہی اس عاجز کا وِرد ہے۔ اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور محبّت اور حضور اور تضرّع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقّت اور بے خودی اور تاثّرکی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔ ‘‘

(مکتوباتِ احمدیہ ۔جلد اول ۔صفحہ 18 بحوالہ رسالہ درود شریف صفحہ 98)

اگر یہ اعتراض ہے کہ نبی کریم کے علاوہ کسی اور پر درودبھیجنے سے نبی کریم کی (نعو ذ باللہ) توہین ہو جاتی ہے تو معترض کا اس آیت قرآنی کے متعلق کیا خیا ل ہے ۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔

”ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلَا ئِکَتُہٗ۔

(الا حزاب: 44)

یعنی وہ اور اس کے فرشتے صحا بہ پر درود بھیجتے ہیں۔

اگر یہ اعتراض درست مانا جائے تو یہ اعتراض خد اتعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر پڑ تا ہے کہ وہ اور اس کے فرشتے صحا بہؓ پر درود بھیجتے ہیں اس سے رسول مقبو ل کی ہتک ہوتی ہے اور گویا یہ ہتک کرنے والا کوئی اور نہیں خدا اور اس کے فرشتے ہیں ۔( نعو ذ باللہ من ذالک)

اور اگر اعتراض یہ ہے  کہ ”صَلَّ“ کا لفظ ہی نبی کریم کے علاوہ کسی اور کے لئے استعمال کرنے سے نبی پاک کی ہتک ہو تی ہے تو یہ الفاظ تو نبی کریم ایک دو نہیں بلکہ ایک پورے قبیلہ کے متعلق استعمال فرماتے ہیں۔

چنانچہ بخاری کی روایت ہے ۔

عَنْ اَبِیْ اَوْفی : قَالَ: کَانَ اِذَا اَتَی رَجُلٌ النَّبِیَّ بِصَدَقْۃٍ قَالَ : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ۔ فَاَتَاہُ اَبِیْ بِصَدَقَۃٍ فَقَالَ : اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ آلِ اَبِیْ اَوفی۔

               (بخاری ، کتاب الدعوات، باب ھل یصلی علی غیر النبی )

ترجمہ:۔ابی اوفی روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص نبی کریم ﷺ کے پاس صدقہ لیکر آتا تو حضورﷺفرماتے:اے اللہ اس پر رحمت نازل فرما۔پھر میرے والد صدقہ لیکر حاضر ہوئےتو آپ نے فرمایا:اے اللہ ابو اوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔           اس حدیث کے باب کا عنوان ہی اس پورے اعتراض کو رد کردیتا ہے۔

دراصل یہ دعائیہ کلمات ہی ہیں جن سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تجھ پر اپنا فضل نازل کرے۔ہم روزانہ درود شریف پڑھتے ہیں۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ  عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰ لِ مُحَمَّدٍ۔۔۔۔۔اس میں تو آنحضورﷺ  کے ساتھ ساتھ آپؐ کی آل پر بھی درود پڑھتے ہیں ۔اٰ ل سے مراد حضور کے جسمانی رشتہ دار ہی نہیں بلکہ آپﷺ کے روحانی رشتہ دار یعنی آپ ﷺ کی امت بھی مراد ہے ۔

اب اگر حضور ﷺ کے علاوہ کسی پر درود بھیجنا حضور ﷺ کی توہین ہے ۔تو حضور ﷺ نے یہ الفاظ اپنی امت کو سکھائے ہی کیوں؟

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…