اعتراض: غیر زبانوں (انگریزی وغیرہ) میں الہامات کیوں ہوئے؟

آیت قرآنی وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ (ابراہیم: 5 )(ترجمہ :اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجامگر اس کی قوم کی زبان میں تاکہ وہ انہیں خوب کھول کر سمجھا سکے۔) پیش کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہونے والے ان الہامات پر اعتراض کیا جاتا ہے جو کہ ان زبانوں میں ہوئے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کچھ بھی واقفیت نہ تھی جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔

2۔نیز حضرت مسیح موعود ؑ کی مندرجہ ذیل تحریر پیش کر کے اسے آپکے الہاموں کے خلاف دلیل قرار دیا جاتا ہے:

’’ یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالا یطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘  (چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 218 )

دوسری زبانوں میں الہام ہونے پر اعتراض کا جواب از حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’اس جگہ بعض نادانوں کا یہ اعتراض بھی دفع ہو جاتا ہے کہ وحی الٰہی کے دعویٰ کو یہ امر مستلزم ہے کہ وہ وحی اپنی زبان میں ہو نہ عربی میں ۔ کیونکہ اپنی مادری زبان اس شخص کے لئے لازم ہے جو مستقل طور پر بغیر استفادہ مشکوٰۃ نبوت محمدی کے دعویٰ ٔ نبوت کرتا ہے لیکن جو شخص بحیثیت ایک امتی ہونے کے فیض نبوت محمدیہ سے اکتساب انوار نبوت کرتا ہے وہ مکالمہ الٰہیہ میں اپنے متبوع کی زبان میں وحی پاتا ہے تا تابع اور متبوع میں ایک علامت ہو جو ان کے باہمی تعلق پر دلالت کرے۔ ‘‘ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن19ص216)

معروف تفاسیر میں آیت زیر بحث کا معنی

قرآن کریم کی اس آیت میں یہ مضمون بیان ہورہا ہے کہ ہر نبی اپنی مخاطب قوم کی زبان ہی بولتا ہے اور اسے اسکی قوم کی زبان میں معیاری فصاحت و بلاغت عطا کی جاتی ہے۔ تا وہ مطالب روحانیہ کو واضع طور پر بیان کر سکے۔ مفسرین نے بھی اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔

چنانچہ تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے:

اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہ اَیْ مُتَکَلِّمًا بِلُغَةِ مَنْ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ مِنَ الْاُمَمِ۔ (تفسیر روح المعانی جلد 4 صفحہ 209)

ترجمہ: اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ کا یہ مطلب ہے کہ نبی اس قوم کی زبان بولا کرتا ہے جس کی طرف وہ مبعوث ہوتا ہے۔

تفسیر مدارک التنزیل میں لکھا ہے :

اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہ اِلَّا مُتَکَلِّمًا بِلُغَتِھِمْ۔ (تفسیر مدارک التنزیل زیر آیت مَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ)

ترجمہ: اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ کا مطلب ہے کہ نبی اپنی قوم کی زبان بولا کرتا ہے۔ الغرض یہ امر ثابت ہو گیا کہ آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ کے ہر گز وہ معنی نہیں ہیں جو کہ معترض نے اپنی طرف سے گھڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مورد اعتراض ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ یہ معترض کا کھلا کھلا ، دجل اور قرآن کریم کی تحریف معنوی ہے کہ صحیح معنوں کا جانتے بوجھتے ہوئے انکار کر رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقاومطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں ساری قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے

گذشتہ انبیاء علیھم السلام مخصوص قوموں کی طرف مبعوث ہوتے تھے۔ اور جو نبی کسی خاص قوم کی طرف مبعوث نہ ہو بلکہ تمام قوموں کی طرف مبعوث ہو وہ اس آیت میں شامل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقاومطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں ساری قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔

اب اس بات کے ثبوت کے طور پر کہ آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ میں آنحضرت ﷺ سے پہلے کے انبیاء کا ذکر ہے کیونکہ وہ خاص خاص قوموں کی طرف رسول ہو کر آتے تھے، درج ذیل حدیث ملاحظہ ہو:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَضَّلَ مُحَمَّدًا ﷺ عَلٰی الْأَنْبِیَاءِ قَالَ اللہُ تَعَالٰی۔ وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُم ۔۔۔وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی لِمُحَمَّدٍ ﷺ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ فَاَرْسَلَہُ اللہُ اِلَی الْجِنِّ وَالْاِنْسِ۔ (مشکوة کتاب الفتن باب فضائل نبینا ﷺ فصل الثالث صفحہ 515)

ترجمہ: حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ انبیاء کی نسبت فرمایا: ”ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ ان کے سامنے کھول کر بیان کر سکے۔“ مگر ہمارے نبی کریم ﷺ کی نسبت فرمایا: ”ہم نے تجھ کو تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے۔“ گویا آپ کو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی طرف رسول کر کے بھیجا۔

اس حدیث کے متعلق مستدرک میں لکھا ہے:

ہٰذَا الْحَدِیْثُ صَحِیْحُ الْاَسْنَادِ (مستدرک الحاکم جلد 2 صفحہ 350)

یعنی یہ حدیث صحیح ہے اور اسکی سند مضبوط ہے ۔

حضرت سلیمان ؑ کو منطق الطیر کس زبان میں سکھائی گئی؟

قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول ہے:

وَقَالَ یَااَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ (النحل: 17)

ترجمہ: اور اس نے کہا کہ اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو یہ کہا کہ اے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان کس نے سکھائی تھی ؟ ہر ایک اس امر سے واقف ہے کہ خدا تعالیٰ نے سکھائی تھی اور یہ تعلیم بذریعہ الہام ہی ہو سکتی تھی۔

پس اس آیت سے غیر احمدیوں کے نزدیک یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوسری قوموں کی زبانیں تو ایک طرف رہیں، اللہ تعالیٰ نبیوں کو پرندوں کی زبان میں بھی الہام کرتا ہے۔ ہمارا ان لوگوں سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرتے  ہیں یہ سوال ہے کہ آپ کے نزدیک حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان میں الہام ہوا۔ اگر یہ امر معترض کے نزدیک آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہ کے خلاف نہیں ہے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انگریزی، عربی،فارسی وغیرہ زبانوں میں الہامات جو انسان بولا کرتے ہیں کیونکر جائے اعتراض ٹھہر سکتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزی اور عبرانی زبان نہ جانتے تھے مگر پھر بھی آپؑ پر ان زبانوں میں الہام ہونا ایک معجزہ ہے۔ ان زبانوں میں حضور علیہ السلام کو الہام ہونا آپ کے الہامات کی صداقت کا ثبوت ہے۔ نیز ان الہامات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خیالات کا رد کیا ہے جو الہام کو ملہم کے دماغی خیالات قرار دیتے ہیں۔

جواب اعتراض #2

دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے خود فرمایا ہے :

’’ یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالا یطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ (چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 218 )

چشمہ معرفت میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ’’ملہم‘‘جس زبان کو نہ سمجھتا ہو اس میں اس کو الہام نہیں ہو سکتا۔ وہاں تو ذکر یہ ہے کہ آریہ کہتے ہیں کہ الہامی کتاب اس زبان میں نازل ہونی چاہیے جو کسی انسان کی زبان نہ ہو تاکہ ایشور جی مہاراج نا انصاف نہ ٹھہریں۔ یہی وجہ ہے کہ وید سنسکرت میں نازل ہوئے جو کہیں بولی نہیں جاتی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان (نہ کہ ملہم کی)زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اسکو کسی اور زبان میں ہو  جس کو کوئی (انسان)سمجھتا ہی نہ ہو کیونکہ یہ تکلیف ’’ما لا یُطاق‘‘ہے کیونکہ اس کو ملہم کسی دوسرے سے بھی نہیں سمجھ سکتا ، لیکن اگر کسی ایسی زبان میں الہام ہو جو انسانی زبان ہو وہ ’’تکلیف ما لا یطاق‘‘نہیں کیونکہ اگر ملہم خود اس زبان کو نہیں جانتا تو دوسروں سے معلوم کرسکتا ہے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے آگے فرمایا ہے کہ مجھے مختلف زبانوں میں الہامات ہوتے ہیں۔

وہاں تو ذکر یہ ہے کہ آریہ کہتے ہیں کہ الہامی کتاب اس زبان میں نازل ہونی چاہیے جو کسی انسان کی زبان نہ ہو تاکہ ایشور جی مہاراج نا انصاف نہ ٹھہریں۔ یہی وجہ ہے کہ وید سنسکرت میں نازل ہوئے جو کہیں بولی نہیں جاتی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان (نہ کہ ملہم کی)زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اسکو کسی اور زبان میں ہو  جس کو کوئی (انسان)سمجھتا ہی نہ ہو کیونکہ یہ تکلیف ’’ما لا یُطاق‘‘ہے کیونکہ اس کو ملہم کسی دوسرے سے بھی نہیں سمجھ سکتا ، لیکن اگر کسی ایسی زبان میں الہام ہو جو انسانی زبان ہو وہ ’’تکلیف ما لا یطاق‘‘نہیں کیونکہ اگر ملہم خود اس زبان کو نہیں جانتا تو دوسروں سے معلوم کرسکتا ہے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے آگے فرمایا ہے کہ مجھے مختلف زبانوں میں الہامات ہوتے ہیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…