اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،انا اعطینک کالکوثر۔۔۔۔
اعتراض بابت نزول قرآنی آیات
ناظرین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز مہم میں الزام تراشیوں کا ایک سلسلہ جاری ہے جس کی تردید ہراحمدی کی ذمہ داری ہے۔تاکہ ماحول میں فتنہ و فساد کی بجائے امن قائم ہو۔
چنانچہ حال ہی میں تنظیم اسلامی کی ویب سائیٹ پر پروگرام ‘‘ زمانہ گواہ ہے’’ کی قسط نمبر124کے ذریعہ سے سوشل میڈیا پر‘‘قادیانیوں کے ہوش رُبا عقائد’’کے نام سےاحمدیوں پرکئی غلط الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
اعتراض
ایک بودااعتراض یہ کیا گیا ہے کہ مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،انا اعطینک کالکوثر۔۔۔۔
جواب
ناظرین کرام!قرآن کریم سے ثابت ہے کہ خدائے خبیرومتکلم کی کوئی صفت کبھی معطل نہیں ہوتی۔چنانچہ سورة حم السجدة کی آیت 31 ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ (حم السجدة 31)
یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ استقامت اختیار کرتے ہیں،فرشتے ان پر نازل ہوکر  کہتے ہیں۔
کیا کہتے ہیں؟آگے وہ تین آیات ہین جو فرشتے مومنوں کو الہام کرتے ہیں:
أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ(حم السجدة 31) یعنی اے استقامت اختیار کرنے والے مومنو! تم خوف نہ کرو اور غم نہ لگاؤ بلکہ اللہ کی جنت کی بشارت پاؤ اور وہ فرشتے ان پر اس آیت کی وحی بھی کرتے ہیں۔
دوسری آیت:نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (حم السجدة 32)
یعنی وہ فرشتے کہتے ہیں ہم اس دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔اور تمہارے لیے دنیا و آخرت میں وہ کچھ ہے جو تمہارے نفس خواہش کریں گے اور جو تم مانگو گے ۔
اور تیسری آیت جو وہ مومنوں کووحی کریں گے نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ   (حم السجدة 33)
یہ سب کچھ بخشنے والے اور رحم کرنے والے خدا کی طرف سے بطور مہمانی کےہے۔
مفسرین امت میں سےحضرت امام رازیؒ نے اس آیت کے تحت تفسیر کبیر میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں مختلف اقوال درج کرتے ہوئے یہ معنے بھی کیے ہیں کہ اس سے مراد مومنوں پر ہونے والی وحی اور الہام ہے جو اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی ہوگی۔اور یہ کہ عیسیٰؑ پر بھی وحی حقیقی آئے گی۔
یہی مسلک صوفیائے امت اور علمائے عظام کا ہے چنانچہ
1۔چھٹی صدی کے بزرگ صوفی شیخ اکبرحضرت محی الدین ابن العربی ؒ فرماتے ہیں:
’’ تنزّل القرآن علی قلوب الاولیاء ما انقطع مع کونہ محفوظاً لہم ولکن لھم ذوق الانزال وھذا لبعضھم ‘‘
(فتوحاتِ مکیہ۔ جلد 6صفحہ 285باب 159۔مطبوعہ دار صادر بیروت)
یعنی قرآن کریم کا ولیوں کے دل پر نازل ہونا منقطع نہیں ہوا ،باوجودیکہ وہ ان کے پاس اصلی صورت میں محفوظ ہے ، لیکن اولیاء کو نزولِ قرآنی کا ذائقہ چکھانے کی خاطر ان پر نازل ہوتا ہے اور یہ شان صرف بعض اولیاء کو عطا کی جاتی ہے۔
2۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں:
’’ اے انسان ! اگر تو نیکی میں ترقی کرتا چلا جائے تو اللہ تعالیٰ تجھے اتنی عزت دے گا کہ تجھے سورة یوسف آیت نمبر5 کے الفاظ سے اللہ کی طرف سے مخاطب کیا جائیگا‘‘بانّک الیوم لدینا مکین امین’’۔’’
(فتوح الغیب ۔مقالہ ۲۸، صفحہ ۱۷۱سورہ یوسف ۔مطبع ہوپ لاہور ۔ ۱۳۸۳ھ)
یعنی آج سے تو ہمارے ہاں بڑی عزت والا اور بہت امانت دار ہے۔
3۔ حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے بیٹے کی پیدائش سے قبل یہ سورة مریم آیت8 الہام ہوئی :
’’  إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى (مريم 8) ‘‘
(مکتوبات امام ربانی ۔فارسی ۔جلد دوم ۔صفحہ ۱۲۶مطبوعہ دہلی)
یعنی‘‘ہم تجھے ایک ہونہار بچّے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے’’۔اس کے بعد حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا اورآپ نے اس کا نام اس وحی کے مطابق ‘‘یحیٰ’’ہی رکھا۔
امت میں  آنیوالے مسیح کے بارہ میں بھی رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘فاوحی اللہ الی عیسیٰ’’ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال) کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ کی طرف وحی فرمائیگا۔
اور ظاہر ہے خاتم النبیینﷺکے بعدیہ وحی قرآن کے سوا انجیل کی نہیں ہوسکتی کیونکہ جب وہ آنحضرت کےامتی ہونگے تو لازماً احکام قرآنی پر عمل کروائیں گے ۔فرشتوں سے بذریعہ وحی قرآن سیکھ کر مولوی حضرات کو سکھائیں گے۔
4۔ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب بیان فرماتے ہیں:‘‘فیُرسَل ولیاً ذا نبوۃٍ مطلقۃٍ ویلہم بشرع محمدٍ ؐ‘‘
(الیواقیت والجواہر جلد ۲صفحہ ۸۹بحث ۴۷ ،الطبعۃ الثانیہ المطبعۃ الازھریہ ۱۳۲۱ھ)
کہ مسیح موعود کا مقام اس عظیم الشان ولی کا ہےجو صاحبِ نبوّتِ مطلقہ ہو گا اور اس پر شریعتِ محمدیہ الہاماً نازل ہو گی۔
5۔حضرت خواجہ میر درد مرحوم ؒ کی کتاب ‘‘علم الکتاب ’’میں دو درجن سے زائد الہامات آیاتِ قرآنیہ پر مشتمل ہیں۔ ان میں سورة الشعراء کی آیت نمبر215بھی ہے جو خاص طور پر رسول اللہﷺ کو خطاب کرکے الہام ہوئی: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشعراء 215)
(علم الکتاب ۔صفحہ ۶۴)
کہ تو اپنے قریبی رشتہ داروں کو انتباہ کر۔
اس لیے یہ خیال بھی درست نہیں کہ جن آیات میں خطاب رسول اللہﷺ کو ہے وہ کسی اور کو الہام نہیں ہوسکتیں۔
6۔چنانچہ حضرت نظام الدین اولیاء(جو اہل سنت حضرات کے بلند پایہ بزرگ مانے جاتے ہیں) کو سورة حج کی آیت 108 وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ الہام ہوئی۔
(شرح جوامع الکلم ۔ملفوظات گیسو در از۔صفحہ 215)
کہ میں نے تجھے رحمة للعالمین کرکے بھیجا ہے۔
اب یہی آیت اگر اس زمانے کے مسیح و مہدی حضرت مرزا صاحب کو بھی الہام ہوگئی ہے تواس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔
7۔ اہلحدیث کے چوٹی کے بزرگ حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کو متعدد دیگر آیات کے ساتھ سورة والضحی ، سورة الم نشرح اورسورة کوثرکی آیات نازل ہوئیں۔جن میں خاص طور پرآنحضرتﷺ کو خطاب ہے۔
(سوانح مولوی عبداللہ غزنوی ۔مؤلفہ مولوی عبدالجبار غزنوی ومولوی غلام رسول ۔ مطبع القرآن السنۃ امرتسر)
حیرت ہے انہی سورتوں کی یہ آیات جب حضرت مرزا صاحب پر نازل ہوئیں تو اسے ناحق اعتراض کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔حالانکہ اہل حدیث بزرگ مولوی عبد اللہ غزنوی پر جب اہل سنت کے مولوی غلام علی قصوری نے یہی اعتراض کیا تو ان کے صاحبزادے کی اس وضاحت پرخاموش ہوگئے تھے کہ
’’ اگر کسی پر ان آیات کا القاء ہو جن میں خاص آنحضرت ؐ کو خطاب ہے مثلاً الم نشرح لک صدرک کیا نہیں کھولا ہم نے واسطے ترے سینہ تر ا ، ولسوف یعطیک ربک فترضی۔ ۔۔ فصل لربک وانحر ۔۔۔۔ ووجدک ضالا فھدی ۔ تو بطریق اعتبار یہ مطلب نکالا جائے گا کہ انشراحِ صدر اور رضا اور انعامِ ہدایت جس لائق یہ ہے علیٰ حسبِ المنزلہ اس شخص کو نصیب ہو گا اور اس امرونہی وغیرہ میں اس کو آنحضرت ؐ کے حال میں شریک سمجھا جائے گا۔ ’’
(اثبات الالہام والبیعۃ ۔ صفحہ 43، 142)
حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا یہی مسلک ہے کہ یہ نعمت الہام ان کو خالصةً اللہ کے فضل اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی پیروی کی برکت سے حاصل ہوئی۔آپؑ تحریرفرماتے ہیں :
‘‘ میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سیّد ومولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺ، خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔’’
(حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲صفحہ ۶۴ ، ۶۵)

 

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

عبدالحکیم مرتد کی پیشگوئی کے مطابق مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام کی وفات ہوئی؟

اپنی وفات کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات جواب :۔ ۱۔ دسمبر ۱۹۰۵ء میں اپنی وفات سے اڑ…