اعتراض: مرزا صاحب نے قرآنی آیات کو جن کے مخاطب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تھے، اپنے پر چسپاں کیا ہے

معا ندین سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کو الہام ہونے والی قرآنی آیات کو تحریر کر کہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذباللہ آپؑ نے قرآن پاک کی توہین کی ہے اور قرآن کی آیات کو، جن کے مخاطب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تھے ،اپنے پر چسپاں کیا ہے ۔

بنیادی جواب

اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں پر اپنا کلام نازل کرتا ہے ۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود و مہدی معہود ہیں جن کے آنے کی خوشخبری آنحضرت ﷺ نے دی تھی۔ اس لحاظ سے اگر اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام جو رحمانی کلام ہے نازل کیا تو اس میں کیا حرج ہے ؟

جہاں تک اعتراض کا تعلق ہے تومعاندین کی طرف سے درج ذیل حوالہ جات پیش کر کے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔

1 : قُلْ یٰاَ اَیُّھَا الْنَّاسَ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۔

(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22ص 70)

2: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی

(اربعین ص 36روحانی خزائن جلد 22 ص 426)

3: مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی

(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22ص 73)

4: قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَأَ نَا اَوَّلُ الْمُوٴمِنِیْنَ

(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22ص 73)

6: دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی

(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22ص 79)

7: اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ

(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22ص 82)

کیا آیات قرآنیہ کسی امتی پر الہاماً نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں؟

حضرت مسیح موعود ؑ کے ان الہاما ت کو معترضین قرآن کریم کی توہین قرار دیتے ہیں چنانچہ اس الزام کی تردید میں درج ذیل امور کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

 1: کیا آیات قرآنیہ کسی امتی پر الہاماً نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں ؟

 2: کیا وہ آیات جن میں خاص طور پر ہمارے آقا ومولی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے وہ کسی امتی پرالہاما ًنازل ہو سکتی ہیں یا نہیں؟

 3: آیات قرآنی خواہ ان میں آپ ﷺ کو مخاطب کیا گیاہو اگر کسی امتی پر نازل ہوں تو کیا اس سے قرآن پاک کی توہین ہو جاتی ہے ؟

 کیا آیات قرآنیہ کسی امتی پر الہاماً نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں؟

جہاں تک امر اول کا تعلق ہے ہمیں سر تاج صوفیاء حضرت شیخ محی الدین ابن العربی بتاتے ہیں :

”تَنَزَّلُ الْقُرْآنِ عَلٰی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَاءِ مَا نَقْطَعُ مَعَ کَوْنِہٖ مَحْفُوْظًا لَھُمْ وَلکِنَّ لَھُمْ ذَوْقُ الْاَنْزَالِ وَ ھَذَ ا لِبَعْضِھِمْ “

(فتوحات مکیہ جلد 2ص 285باب 159مطبوعہ دارصادر بیروت )

ترجمہ :یعنی قرآن کریم کا ولیوں کے دلوں پر نازل ہو نا منقطع نہیں ہو ا۔ باوجودیکہ و ہ ان کے پاس اصلی صورت میں محفوظ ہے ۔لیکن اولیاء کو نزو ل قرآنی کا ذائقہ چکھانے کی خاطر ان پر نازل ہو تا ہے اور یہ شان بعض کو عطا کی جاتی ہے ۔

حضرت شیخ عبدالقادر ؒ ہر سالک کو مخاطب کر تے ہوئے فرماتے ہیں :

”اے انسان اگر تو نیکی میں ترقی کر تا چلا جائے تو اللہ تعالی تجھے اتنی عزت دیگا کہ تُخَاطِبُ بِاَنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ “

(فتوح الغیب مقالہ 28 ص 171سورہ یوسف)

”اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَامَکِیْنٌ اَمِیْنٌ “سورہ یوسف کی آیت 55ہے جس کا ترجمہ ہے ’’تو آج سے ہمارے ہاں معزز مرتبے والا اور قابل اعتماد آدمی شمار ہو گا۔‘‘

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ خدا تعالی تجھے اس آیت قرآنی سے مخاطب فرمائے گا ۔پس یہ خدا تعالی کی سنت ہے کہ و ہ اپنے پاک بندوں پر بعض اوقات آیات قرآنیہ الہاما ًنازل فرماتا ہے۔

اسی طرح حضرت مجدد الف ثانی ؒ پر بھی آیت قرآنیہ الہام ہوئی ۔چنانچہ بیٹے کی پیدائش سے قبل انہیں الہام ہو ا : اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اِسْمُہ یَحْیٰ

(مکتوبات امام ربانی فارسی جلد دوم ص 126 مطبوعہ دہلی)

یہ سورة مریم کی آٹھویں آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تجھے ایک ہو نہار بچے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ۔

چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی کے گھر بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام آپ نے یحیٰ رکھا ۔

ان مثالوں سے یہ حقیقت بہر حال واضح ہو گئی کہ آیات قرآنیہ رسول اللہ ﷺ کے امتیوں پرالہاماَ نازل ہو تی ہیں ۔اور امت میں آنے والے مسیح موعود کے بارے میں تو حضرت امام عبدالوہا ب شعرانی ؒ حضرت محی الدین ابن عربیؒ  کا مذہب یوں بیان فرماتے ہیں :

 ”فَیُرْسَلُ وَلِیًا ذَا نُبُوَّةٍ مُطلقَةٍ وَ یُلْھَمُ بِشَرْع مُحَمَّدٍ “

(الیواقیت و الجواہر جلد 2ص 89 بحث 47الطبعة الثانیہ المطبع الاظہریہ 1321ھ)

ترجمہ :کہ مسیح موعود ایسے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا جو نبوت مطلقہ کا حامل ہو گا ۔اور اس پر شریعت محمدیہ الہاما نازل ہو گی ۔

مندرجہ با لاحوالہ جات کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کے بعد کہ آیات قرآنیہ کسی امتی پر نازل ہو سکتی ہیں۔

کیا وہ آیات جن میں خاص طور پر ہمارے آقا ومولی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے وہ کسی امتی پرالہاما ًنازل ہو سکتی ہیں یا نہیں ؟

 اب ہم دوسرے امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا وہ آیات جن کے مخاطب رسول کریم ﷺ تھے کسی امتی پر نازل ہو سکتی ہیں یا نہیں؟

اس بارے میں مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی سوانح میں درج الہامات سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سب و ہ آیات ہیں جن میں رسول کریم ﷺ کو مخاطب فرمایا گیاہے ۔

1: ” نُیَسِّرُ کَ لِلْیُسْرٰی“ باربار الہام ہو ئی ۔(ص 5)

2: وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِیِّی یُرِ یْدُوْنَ وَجْھَہ فَاِذَا قَرَا نٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَابَیَانَہ۔(ص35)

 (سوانح مولوی عبداللہ غزنوی موٴلفہ مولوی عبدالجبار غزنوی و مولوی غلام رسول مطبع القرآن السنہ امرتسر)

ان الہامات کی وجہ سے اس وقت کے مولویوں نے شدید طوفان برپا کیالیکن حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی کے صاحبزادے نے بڑے متواز ن اور سلجھے ہوئے انداز میں حسب ذیل الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی کہ:

”اگر الہام میں اس آیت کا القاء ہو جس میں خاص حضور ﷺ کو خطاب ہو تو صاحب الہام اپنے حق میں خیال کر کے اس مضمون کو اپنے حال کے مطابق کریگا ۔اور نصیحت پکڑے گا۔ اگر کوئی شخص ایک آیت کو جو پروردگار نے جناب رسول کریم ﷺ کے حق میں نازل فرمائی ہے اسے اپنے پر وارد کرے ۔اور اس کے امر ونہی اور تائیدو ترغیب کو بطور اعتبار اپنے لئے سمجھے تو بے شک وہ شخص صاحب بصیرت اور مستحق تحسین ہو گا ۔اگر کسی پر ان آیات کا القاء ہو جن میں خاص حضو ر ﷺ کو خطاب ہے مثلا اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکْ کیا نہیں کھولا ہم نے واسطے تیرے سینہ تیرا، وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ۔فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ۔ فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الْرُّسُلِ ۔وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَا نْحَرْ ۔ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہ عَنْ ذِکْرِنَا وَا تَّبِعْ ھَوَاہُ ۔وَ وَجَدَکَ ضَالًّا فَھَدَی ۔تو بطریق اعتبار یہ مطلب نکالا جائیگا کہ انشراح صدر اور رضا اور انعام ہدایت جس لائق یہ ہے عَلٰی حَسْبِ الْمَنْزِلَةِ اس شخص کو نصیب ہو گا اور اس امر ونہی و غیر ہ میں اس کو حضور ﷺ کے حال میں شریک سمجھا جائے گا ۔ “

(ا ثبات الاالہام و البیعة ص142-143)

حضرت خواجہ میر درد مرحوم نے اپنی کتاب” علم الکتاب “میں اپنے الہامات درج فرمائے ہیں۔ان میں دو درجن سے زائد الہامات آیات قرآنیہ پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے ایک الہام یہ بھی ہے: وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔

(علم الکتاب ص 64)

حضرت نظام الدین اولیاء کو کئی مرتبہ آیات قرآنی الہام ہو ئی:

 وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ

 (جوامع الکلم ملفوظات گیسو دراز ص 226ڈائری بروز شنبہ 26شعبان 802ھ)

تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مندرجہ بالا الہامات آیات قرآنیہ ہیں اور ایسی آیات قرآنیہ ہیں جن میں خاص طور پر حضورر ﷺ کو خطاب ہے ۔اب کیا معترض ان بزرگان امت پر بھی توہین قرآن اور تحریف قرآن کا فتوی صادر کر ے گا؟

آیات قرآنی خواہ ان میں آپ ﷺ کو مخاطب کیا گیاہو اگر کسی امتی پر نازل ہوں تو کیا اس سے قرآن پاک کی توہین ہو جاتی ہے ؟

پس مذکور ہ بالا سچائیاں کھول کھول کر بتا رہی ہیں کہ نہ تو قرآن کریم کی آیات کا محمد ﷺ کے کسی امتی پر نازل ہو نا قابل اعتراض ہے اور نہ ہی ایسی آیات کا نازل ہو نا محل اعتراض ہے ،جو خاص حضورر ﷺ کے حق میں نازل ہوئی ہیں یا آپ ﷺ کو مخاطب کر کے نازل فرمائی گئی ہیں ۔اور نہ ہی ایسی آیات کا کسی امتی پر نزول قرآن یا رسول ﷺ کی توہین کا موجب ہے ۔بلکہ یہ رسول کریم ﷺ کا فیض ہے جو کہ آ پ کے امتیوں میں جاری اور ساری ہے ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…