تحریری ’’۔۔۔دوسری حدیثوں کو ہم ردّی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔۔۔ ‘‘ پر اعتراض کا جواب

حضرت مسیح موعود ؑ کی مندرجہ ذیل عبارت الزام لگایا جاتا ہے کہ اس میں حدیث کی توہین کی گئی ہے اور یہ اصول حدیث خود ساختہ ہے ۔’’ میرے اِس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں۔ اور دوسری حدیثوں کو ہم ردّی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ ‘‘ (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد 19ص140)

حضرت مسیح موعود ؑ کی مندرجہ ذیل عبارت الزام لگایا جاتا ہے کہ اس میں حدیث کی توہین کی گئی ہے اور یہ اصول حدیث خود ساختہ ہے ۔’’ میرے اِس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں۔ اور دوسری حدیثوں کو ہم ردّی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ ‘‘ (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد 19ص140)

توہین کے الزام کا جواب

اس حوالہ میں حدیث کی توہین نہیں کی گئی بلکہ صرف ان حدیثوں کو ردی کہا گیا جوبعد میں لوگوں کی طرف سے گھڑ لی گئی تھیں جن کا نبی کریم ﷺ سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے جو نبی کریم ﷺ پر نازل کیا گیا ۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے  نبی کریم ﷺ کی اتباع میں آپﷺ کے مشن کو ہی پھیلانے کے لئے بھیجا۔ لہٰذا جو حدیث قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی وحی جو اللہ تعالیٰ نے ناز ل فرمائی ، کے خلاف جائے ، اسے رد کیا جائے گا۔ درحقیقت وہ نبی کریم ﷺ کا قول نہیں ہو گا کیونکہ آپﷺ کی کوئی بات اللہ تعالیٰ کے کلام کے خلاف نہیں ہو سکتی۔

حضرت مسیح موعودؑ صحیح احادیث کے متعلق فرماتے ہیں :

’’اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہوگئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا۔‘‘

(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔روحانی خزائن جلد19ص211 )

معترضہ حوالہ کا جواب

معترضہ حوالہ سے کچھ صفحات قبل حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :۔

’’  ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو ردّی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اُن میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی اور معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ۔ ‘‘

(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد 19ص138)

پھر فرماتے ہیں:

’’ بعض چالاک مولوی کہتے ہیں کہ اگر کوئی آسمان سے بھی اُترے اور یہ کہے کہ فلاں فلاں حدیث جو تم مانتے ہو صحیح نہیں ہے تو ہم کبھی قبول نہ کریں گے اور اُس کے منہ پر طمانچہ ماریں گے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ ہاں حضرات آپ کے وجود پر یہی اُمید ہے۔ مگر ہم بادب عرض کرتے ہیں کہ پھر وہ حَکَم کا لفظ جو مسیح موعود کی نسبت صحیح بخاری میں آیا ہے اُس کے ذرہ معنی تو کریں ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ حَکَم اُس کو کہتے ہیں کہ اختلاف رفع کرنے کے لئے اُس کا حکم قبول کیا جائے اور اُس کا فیصلہ گو وہ ہزار حدیث کو بھی موضوع قرار دے ناطق سمجھا جائے جو شخص خدا کی طرف سے آئے گا وہ آپ کے طمانچے کھانے کو تو نہیں آئے گا خدا تعالیٰ اُس کے لئے خود راہ نکال دے گا۔ جس شخص کو خدا نے کشف اور الہام عطا کیا اور بڑے بڑے نشان اُس کے ہاتھ پر ظاہر فرمائے اور قرآن کے مطابق ایک راہ اُس کو دکھلادی تو پھر وہ بعض ظنّی حدیثوں کے لئے اس روشن اور یقینی راہ کو کیوں چھوڑے گا اور کیا اُس پر واجب نہیں ہے کہ جو کچھ خدا نے اُس کو دیا ہے اُس پر عمل کرے اور اگر خدا کی پاک وحی سے حدیثوں کا کوئی مضمون مخالف پاوے اور اپنی وحی کو قرآن سے مطابق پاوے اور بعض حدیثوں کو بھی اُس کی مؤیّد دیکھے تو ایسی حدیثوں کو چھوڑ دے اور اُن حدیثوں کو قبول کرے جو قرآن کے مطابق ہیں اور اُس کی وحی کے مخالف نہیں۔ ‘‘

(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد 19ص139)

ایک دوسرے موقع پر حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:

’’اس زمانہ کے بعض نادان کئی دفعہ شکست کھا کر پھر مجھ سے حدیثوں کے رو سے بحث کرنا چاہتے ہیں یا بحث کرانے کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر افسوس کہ نہیں جانتے کہ جس حالت میں وہ اپنی چند ایسی حدیثوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے جو محض ظنّیات کا ذخیرہ اور مجروح اورمخدوش ہیں اور نیز مخالف ان کی اور حدیثیں بھی ہیں اور قرآن بھی ان حدیثوں کو جھوٹی ٹھہراتا ہے تو پھر مَیں ایسے روشن ثبوت کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں جس کی ایک طرف قرآن شریف تائید کرتا ہے اور ایک طرف اس کی سچائی کی احادیث صحیحہ گواہ ہیں اور ایک طرف خدا کا وہ کلام گواہ جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اور ایک طرف پہلی کتابیں گواہ ہیں اور ایک طرف عقل گواہ ہے اور ایک طرف وہ صدہانشان گواہ ہیں جو میرے ہاتھ سے ظاہرہو رہے ہیں پس حدیثوں کی بحث طریق تصفیہ نہیں ہے خدا نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں اور جو شخص حَکم ہو کر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر ردّ کر دے ۔‘‘

(اربعین نمبر3۔روحانی خزائن جلد 17ص401)

خود ساختہ میعار کا جواب

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :۔

’’اللہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ(الجاثیہ:6) یعنی خدا اور اُس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے۔ اِس جگہ حدیث کے لفظ کی تنکیر جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتلارہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو۔ اُس کو ردّ کردو۔ اور اس حدیث میں ایک پیشگوئی بھی ہے جو بطور اشارۃ النص اس آیت سے مترشح ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آیۃ ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی اس اُمّت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراداس امّت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جن کے بیان کردہ بیان قرآن شریف کے بیانات سے مخالف اور معارض ہوں گے۔‘‘

(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد 19ص207)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…