الہام اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَان پر اعتراض کا جواب

اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَان(تذکرہ صفحہ 76)معترضین حضرت مرزا صاحب کے اس الہام کو پیش کر کے یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن بھی قادیان کے قریب ہی اتر آیا۔

مکمل اقتباس پڑھیں

ہم سب سے پہلے پورا اقتباس درج کرتے ہیں جس کی بنا پر معترض نے اپنے افتراء کی عمارت تعمیر کی ہے ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ فرماتے ہیں:            ۔

                        ’’کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادرمیرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ ’’ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَان ‘‘تو میں نے سن کر تعجب کیا کہ کیا قادیان کانام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے ؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے ۔ تب میں نے نظر ڈالی جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے ۔ تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے ۔‘‘

 (ازالہ اوہام حاشیہ۔روحانی خزائن جلد 3ص139)

کشف اور خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں۔ائمہ سلف کی مثالیں

یہ ایک کھلی کھلی حقیقت ہے کہ خوابوں کی طرح کشفی نظاروں کی بھی بہت سی تعبیر طلب باتیں دکھائی جاتی ہیں جو ظاہری دنیا کے حقیقی واقعات سے مختلف ہوتی ہیں ، انہیں جھوٹ قرار دینےوالا جاہل مطلق ہوگا۔

            حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت اما م اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ ایک رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر ﷺ کی ہڈیوں کو آپ کی لحد مبارک میں جمع کر رہے ہیں اور بعض ہڈیوں کو بعض سے پسند کر رہے ہیں اس خواب کی ہیبت سے آپ بیدار ہو گئے۔ آپ نے خدا ترس ، عارف باللہ اور عالم دین محمد بن سیرین ؒ سے ڈرتے ڈرتے یہ رؤیا بیان کی تو دیکھئے کیسی عمدہ روحانی تعبیر انہوں نے فرمائی اور انہوں نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ ’’تو پیغمبرﷺ کے علم اور سنت کی حفاظت میں اس درجہ کو پہنچے گا کہ صحیح کو سقم سے جدا کرے گا۔‘‘

                                                            (کشف المحجوب مترجم اردو۔ ص115،116باب ذکر تبع تابعین ترجمہ مولوی محمد حسین صاحب مناظر گوندلانوالیہ ضلع گوجرانوالہ مطبوعہ دین محمد ی پریس کشمیری بازار لاہور)

            پس ایسی بے شمار مثالیں صالحین امت کی زندگیوں سے ملیں گی۔ ان مین سے چند ایک ہدیہ قارئین کر رہے ہیں ۔

حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کا درج ذیل کشف ملاحظہ فرمائیں:

            ’’حضرت مجدد الف ثانی ؒ کو ہمیشہ کعبہ شریف کی زیارت کا شوق رہتا تھا۔۔۔کیا مشاہدہ فرماتے ہیں کہ تمام عالم انسان ، فرشتے، جن سب کی سب مخلوق نمازمیں مشغول ہیں اور سجدہ آپ کی طرف کرر ہے ہیں۔ حضرت اس کیفیت کو دیکھ کر متوجہ ہوئے ۔ توجہ میں ظاہر ہوا کہ کعبہ معظمہ آپ کی ملاقات کےلئے آیا ہے اور آپ کے وجودباجود کو گھیرے ہوئے ہے ۔ اس لئے نماز پڑھنے والوں کا سجدہ آپ کی طرف ہوتا ہے ۔ اسی اثناء میں الہام ہوا کہ ’’تم ہمیشہ کعبہ کے مشتاق تھے ہم نے کعبہ کو تمہاری زیارت کے لیے بھیج دیا ہے اور تمہاری خانقاہ کی زمین کو بھی کعبہ کارتبہ دے دیا ہے ۔ جو نور کعبہ میں تھا اسی نور کو اس جگہ امانت کر دیا ہے ‘‘۔ اس کے بعد کعبہ شریف نے خانقاہ مبارک میں حلول کیا اور دونوں کی زمین باہم مل جل گئی۔ اس زمین کوبیت اللہ کی زمین میں فناء اور بقاء اتم حاصل ہوا۔

(حدیقہ محمودیہ ترجمہ روضہ قیومیہ صفحہ 68ازحضرت ابو الفیض کمال الدین سر ہندی ؒ مطبع بلید پریس فرید کوٹ پنجاب )

            حضرت خواجہ سلیمان تونسوی ؒ کی بابت لکھا ہے ۔

            ’’ایک روز حضرت قبلہ نے حلقہ نشین علماء کے سامنے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے دونوں پاؤں کے نیچے مصحف حمید یعنی قرآن مجید ہے ۔ اور میں اس کے اوپر کھڑا ہوا ہوں۔ اس خواب کی کیا تعبیر ہے ۔ سارے علماء اس خواب کی تعبیر بیان کرنے سے عاجز آگئے ۔ پس آپ نے مولوی محمد عابد سوکڑی ؒ کو جو کہ بڑے متبحر اور متدین عالم تھے طلب کیا اور اور ان کے سامنے خواب بیان کیا مولوی صاحب آداب بجا لائے اور کہا کہ مبارک ہو کیونکہ قرآن شریف عین شریعت ہے اور جناب والا کے دونوں قدم ہر زمانہ میں جادۂ شریعت پر مستحکم رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ چنانچہ یہ عمدہ تعبیر ہر کسی کے فکر و عقل کے مطابق تھی ۔ لہٰذا سب کوپسند آئی۔

                                                            (تذکرہ خواجہ سلیمان تونسوی ؒ ۔ اردو ترجمہ نافع السالکین صفحہ 157،156از صاحبزادہ محمد حسین للّہی ناشر شعاع ادب مسلم  مسجد چوک انار کلی لاہور مطبع اشرف پریس لاہور)

            ان چندمثالوں سے واضح ہوگا کہ کشوف ہمیشہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اگر ان کی عقل و سمجھ کے مطابق مناسب تعبیر نہ کی جائے تو نتائج انتہائی بھیانک ہوجاتے ہیں ۔

اس الہام کی تشریح از حضرت مسیح موعودعلیہ السلام

یہ بات واضح ہے  کہ اس تمام عبارت میں کہیں اشارۃً بھی قرآن کریم کے قادیان کے قریب نازل ہونے کا ذکر نہیں پس یہ نتیجہ نکالنا ہرگز زیادتی نہیں کہ معترض نے عمدًا پورا اقتباس پیش کرنے سے اس لئے گریز کیا ہے کہ ایک فقرے سے جو چاہیں مطلب نکالیں اور قاری لا علمی میں ان کے نکالے ہوئے   نتیجہ پر ایمان لے آئے۔

اورجہاں تک مرزا صاحب کے اس الہام کہ’’ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَان ‘‘، کا تعلق ہے جس کے متعلق معترض یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے اس کشف میں جو فقرہ الہام ہوا  اس میں یہ کہا گیا تھا کہ قرآن قادیان کے قریب ہی اترا ہے ۔ یہ مضمون حضرت مرزا صاحب نے کسی جگہ پر بھی بیان نہیں کیا بلکہ ہرجگہ یہی بیان کیا ہے کہ قادیان کے قریب جو کچھ نازل ہوا ہے وہ مسیح موعود اور اس پر نازل ہونے والے آسمانی نشانات ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ میں لکھا ہے :۔

            ’’ اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَان وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنَاہُ وَ بِالْحَقِّ نَزَلَ ۔۔۔یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پُر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتار اہے ۔ اور ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے۔ اور بضرورت حقّہ اترا ہے ۔‘‘

                                    (براہین احمدیہ حصہ چہارم۔حاشیہ در حاشیہ نمبر۳روحانی خزائن جلد ۔1صفحہ 593)

            ایک اور جگہ لکھا ہے :۔

            ’’اس الہام پر نظر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیشگوئی کے پہلے سے لکھا گیا تھا ۔‘‘

(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 139حاشیہ )

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…