اعتراض: مرزا صاحب نے اُخْطِئُ وَ اُصِیْبُ کہہ کر خدا تعالیٰ کی توہین کی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام اُخْطِئُ وَ اُصِیْبُ پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نے خدا تعالیٰ کی توہین کی ہے کہ خدا خطا کرتا ہے اور کبھی پالیتا ہے

حضرت مسیح موعود ؑ کی بیان فرمودہ تشریح

الہام اُخْطِئُ وَ اُصِیْبُ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا :۔

” اس وحی الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ مَیں خطا بھی کرونگا اور صواب بھی یعنی جو مَیں چاہوں گا کبھی کروں گا اور کبھی نہیں اور کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں۔ ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کی کلام میں آجاتے ہیں۔ جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبض رُوح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں۔ حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے اِسی طرح یہ وحی الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطاجاتا ہے اورکبھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے۔ “

(حقیقۃالوحی۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ 106حاشیہ)

وہ حدیث جس کی طرف حضرت مسیح موعود ؑ نے اشارہ فرمایا ہے بخاری میں ہے

الہام اُخْطِئُ وَ اُصِیْبُ کا مفہوم بیان کرتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں:۔

’’ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبض رُوح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں‘‘

                                                            (حقیقۃالوحی۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ 106حاشیہ)

یہ حدیث بخاری میں موجود ہے ۔ حوالہ ملاحظہ ہو

”وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہُ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ“۔

(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع جلد 4 صفحہ 80 مصری)

            خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے کسی چیز کے متعلق کبھی اتنا تردد نہیں کیا،جتنا ایک مومن کی روح قبض کرنے کے وقت مجھے ہوتا ہے۔

پس جیسا کہ خدا کا تردد استعارۃً ہے اسی طرح اس کا کہنا کہ مَیں کبھی خطا کرتا ہوں اور کبھی پا لیتا ہوں، بھی استعارۃً ہی ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ کبھی خدا تعالیٰ اپنے ارادہ کو منسوخ فرما دیتا ہے اور کبھی اسے پورا کر دیتا ہے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…