اعتراض: مرزا صاحب نے انگریز کی بے جا خوشامد کی

خوشامد کی تعریف

افسوس ہے کہ معترضین حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر خوشامد کا الزام لگاتے وقت ایک ذرہ بھی خدا کا خوف نہیں کرتے کیونکہ اول تو آپ کی تحریرات کے اس حصہ پر جس میں انگریزی حکومت کے ماتحت مذہبی آزادی حکومت کی مذہبی امور میں غیر جانبدار ی اور قیام امن و انصاف کے لئے عادلانہ قوانین کے نفاذ کی تعریف کی گئی ہے ۔ لفظ ”خوشامد“ کا اطلاق نہیں ہو سکتا ظاہر ہے کہ بر محل سچی تعریف کو” خوشامد“ نہیں کہہ سکتے ۔ بلکہ” خوشامد“ جھوٹی تعریف کو کہتے ہیں ۔ جو کسی نفع کے حصول کی غرض سے کی جائے ۔ پس مرزا صاحب پر انگریز کی خوشامد کا الزام لگانے والوں پر لازم ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ آپ نے انگریز ی حکومت کے بارے میں جو تعریفی الفاظ استعمال فرمائے وہ حقیقت پر مبنی نہ تھے بلکہ خلاف واقعات تھے اوریہ کہ آپ نے انگریز سے فلاں نفع حاصل کیا ، لیکن ہم یہ بات پورے وثوق اور کامل تحدی سے کہہ سکتے ہیں اور مخالف سے مخالف بھی ضرور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو گا کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے دور میں مذہبی آزادی ، تبلیغ کی آزادی اور قیام امن و انصاف کی جو تعریف فرمائی ۔ وہ بالکل درست تھی ۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جو مذہبی آزادی انگریزی نظام کے ماتحت رعایا کو حاصل تھی ۔ اس کی مثال موجودہ زمانہ میں کسی اور حکومت میں پائی نہیں جاتی ۔

پس منظر

اس ضمن میں سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ 1857ء کے سانحہ کے حالات اور تفصیلات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے وہ زمانہ کس قدر ابتلاء اور مصائب کا زمانہ تھا وہ تحریک ہندووٴں کی اٹھائی ہوئی تھی لیکن اس کو جنگ آزادی کا نام دیا گیا اور یہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں ہندوستانی مسلمان بھی من حیث القوم پس پردہ شامل ہیں۔سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ اس لئے نئی حکومت کے دل میں متقدم حکومت کے ہم قوم لوگوں کے بارہ میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا اس پر1857ء کا حادثہ مستزاد تھا ۔دوسری طرف ہندو قوم تھی جو تعلیم و تربیت ۔صنعت و حرفت ۔سیاست و اقتصاد غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں مسلمانوں پر فوقیت رکھتے تھے مسلمانوں کا انہوں نے معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک تریں دور تھا ۔پنجاب میں انگریزی تسلط سے پہلے سکھ دور کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کی داستان حد درجہ المناک ہے ۔مسلمانوں کو اس زمانہ میں انتہائی صبر آزما حالات سے گذرنا پڑا انہیں جبراً ہندو یا سکھ بنا یاگیا۔ اذانیں حکمًاممنوع قرار دی گئیں مسلمان عورتوں کی عصمت دری مسلمانوں کا قتل اور ان کے سازوسامان کی لوٹ مار سکھوں کا روز مرہ کا مشغلہ تھا۔سکھوں کے انہی بے پناہ مظالم کے باعث مجدد صدی سیزدہم (تیرھویں 13) حضرت سیداحمد بریلوی رحمة اللہ علیہ کو ان کے خلاف علَم جہاد بلند کرنا پڑا۔

پس ایک طرف ہندو قوم کی ریشہ دوانیاں ۔مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ ۔مسلمانوں پر انکا علمی سیاسی اور اقتصادی تفوّق اور ان کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے اور اس کے ساتھ ساتھ سکھوں کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کے لرزہ خیز واقعات تھے ان حالات میں انگریزی دور حکومت شروع ہوا۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کی ابتداء اس اعلان سے کی کہ رعایا کے مذہبی معاملات میں نہ صرف حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت ہوگی ۔بلکہ دوسری قوموں کی طرف سے بھی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ ایسے قانون بنادئیے گئے جن کے نتیجہ میں رعایا کے باہمی تنازعات کا فیصلہ عدل وانصاف سے ہونے لگا۔ ہندووٴں اور سکھوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کے آگے حکومت حائل ہوگئی اور سکھوں کے جبر واستبداد سے بالخصوص پنجابی مسلمانوں کو اس طرح نجات مل گئی گویا کہ وہ ایک دہکتے ہوئے تنور سے یکدم باہر نکل آئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات جن میں آپ نے انگریز کے عدل کی تعریف فرمائی

حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:۔

1۔         ”بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب ”المنار“ نے بھی کیا ہے کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے۔ اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسیٰ بن مریم صلیب سے نجات پاکر اپنی طبعی موت سے بمقام سری نگر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا ۔نہ خدا کا بیٹا ۔ کیا انگریز مذہبی جوش رکھنے والے میرے اس فقرہ سے ناراض نہیں ہونگے ؟ پس سنو اے نادانو ! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار چلاتی ہے ۔ قرآ ن شریف کی رو سے مذہبی جنگ کرنا حرام ہے‘‘۔

(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ 75حاشیہ )

2۔        ” یہ گورنمنٹ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کی حمایت کرتی ہے اور ہر ایک ظالم کے حملہ سے ان کو بچاتی ہے …… میں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہو کرکیا ہے ۔ بلکہ یہ کام محض للہ اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق کیا ہے‘‘ ۔

(نور الحق حصہ اول ۔روحانی خزائن جلد 8صفحہ40تا41)

3۔        ’’ بے شک جیسا کہ خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذہب سمجھتا ہوں، لیکن اسلام کی سچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو درحقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون اور مال کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا ۔میں اس سے درخواست نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معزز عہدہ پر ہوجائے ‘‘۔

(اشتہار21اکتوبر1899ء )

(تبلیغ رسالت جلد 4ص49)

4۔      میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ اپنی متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں ۔کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا“۔

 (تبلیغ رسالت جلد 7ص10)

5۔        میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں بلکہ میں انصاف اور ایمان کی رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کا شکریہ ادا کروں ‘‘۔

(تبلیغ رسالت جلد10ص123)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپؑ کی اولاد نے حکومت سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا

جوتحریرات دی گئی ہیں ان سے واضح ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریزکے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ کسی لالچ یا طمع یا خوف کے زیر اثر نہیں تھا اور یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کو واقعات کی تائید بھی حاصل ہے کیونکہ یہ امر واقعہ ہے اور کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی یہ نہیں کہہ سکتا حضرت مرزا صاحب یا حضور کے خلفاء میں سے کسی نے گورنمنٹ سے کوئی مربعہ یا جاگیر حاصل کی یا کوئی خطاب حاصل کیا بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت بانیء سلسلہ احمدیہ کے خلاف عیسائی پادریوں نے اور بعض اوقات حکومت کے بعض کارندوں نے بھی آپ اورآپ کی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا پس جب یہ ثابت ہے کہ حضور نے کوئی مادی فائدہ گورنمنٹ انگریزی سے حاصل نہیں کیا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کی غیرجانبداری اور امن پسندی اور مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی کے حق میں جو کچھ لکھا وہ مبنی بر حقیقت تھا تو پھر آ پ پر ”خوشامد“کا الزام لگانامحض تعصب اور تحکم نہیں تو اور کیا ہے؟

انگریز کی اس خوبی کی صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نے تعریف نہیں کی بلکہ دوسرے علماء نے بھی کی ۔

حضرت سید احمد بریلویؒ و حضرت مولانا سید اسماعیل صاحب شہید رحمة اللہ علیہ کے انگریز کے عدل کی تعریف میں ارشادات

چنانچہ حضرت سید احمد بریلوی مجد د صدی سیز دہم ؒ نے بھی انگریزی حکومت کے عدل کی بے حد تعریف فرمائی ہے۔

فرماتے ہیں :۔

1۔        ’’سرکار انگریزی مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کرتے اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی ہم پر زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے“۔

(سوانح احمدی ص45)

2۔        ”سید صاحب (حضرت سید احمد بریلوی)رحمة اللہ علیہ کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے‘‘۔

( سوانح احمدی ص139)

حضرت مولانا سید اسماعیل شہید ؒ فرماتے ہیں:۔

۔”ایسی بے رو  و  ریاء اور غیر متعصب سرکار کے خلاف کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں‘‘۔

(سوانح احمدی ص57)

 غرضیکہ ان ہر دو قابل فخر مجاہد ہستیوں نے بھی انگریزی حکومت کی بعینہ وہی تعریف کی جو حضرت بانیء سلسلہ احمدیہ نے کی بلکہ حضرت سید احمد بریلوی ؒ  تو حکومت انگریزی کو” اپنی ہی عملداری“ سمجھتے تھے ۔ کیا معترض  ان بزرگان اسلام پر بھی” انگریزی حکومت کی خوشامد“ کا الزام لگائیں گے؟

پس یہ حقیقت ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کے حق میں جو کچھ لکھا وہ بطور خوشامد نہیں بلکہ بعینہ مبنی برصداقت تھا ۔

حضرت سید احمد بریلویؒ و حضرت مولانا سید اسماعیل صاحب شہید رحمة اللہ علیہ کے انگریز کے عدل کی تعریف میں ارشادات

چنانچہ حضرت سید احمد بریلوی مجد د صدی سیز دہم ؒ نے بھی انگریزی حکومت کے عدل کی بے حد تعریف فرمائی ہے۔

فرماتے ہیں :۔

1۔        ’’سرکار انگریزی مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کرتے اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر کوئی ہم پر زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہے“۔

(سوانح احمدی ص45)

2۔        ”سید صاحب (حضرت سید احمد بریلوی)رحمة اللہ علیہ کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے‘‘۔

( سوانح احمدی ص139)

حضرت مولانا سید اسماعیل شہید ؒ فرماتے ہیں:۔

۔”ایسی بے رو  و  ریاء اور غیر متعصب سرکار کے خلاف کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں‘‘۔

(سوانح احمدی ص57)

 غرضیکہ ان ہر دو قابل فخر مجاہد ہستیوں نے بھی انگریزی حکومت کی بعینہ وہی تعریف کی جو حضرت بانیء سلسلہ احمدیہ نے کی بلکہ حضرت سید احمد بریلوی ؒ  تو حکومت انگریزی کو” اپنی ہی عملداری“ سمجھتے تھے ۔ کیا معترض  ان بزرگان اسلام پر بھی” انگریزی حکومت کی خوشامد“ کا الزام لگائیں گے؟

پس یہ حقیقت ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کے حق میں جو کچھ لکھا وہ بطور خوشامد نہیں بلکہ بعینہ مبنی برصداقت تھا ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…