اعتراض: مرزا صاحب نے آنحضرت ﷺ کے بیٹوں کی تعداد (11) غلط بتائی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےآنحضرت ﷺ کے بیٹوں کی تعداد 11 بتائی ہے ۔ مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ درست نہیں اور گویا اس سے آپؑ کی کم علمی ظاہر ہوتی ہے۔

11بیٹوں والے حوالے کا سیاق و سباق

معترضہ حوالہ :۔

”تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے۔ “

(چشمہٴ معرفت۔خزائن جلد23صفحہ299)

حوالے کا سیاق و سباق

حوالہ پیش کرنے سے قبل حضرت اقدس علیہ السلام کی معترضہ بالا عبارت کا کچھ حصہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ منصف قارئین پر حقیقت آشکار ہو کہ یہ عبارت اعتراض پیدا کرنے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک نہایت لطیف پہلو بیان کر رہی ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

”ایک انسان کا خدا سے کامل تعلق تبھی ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر بہت سے تعلقات میں وہ گرفتار ہو۔ بیویاں ہوں اولاد ہو تجارت ہو زراعت ہو اور کئی قسم کے اُس پر بوجھ پڑے ہوئے ہوں اور پھر وہ ایسا ہو کہ گویاخدا کے سوا کسی کے ساتھ بھی اُس کا تعلق نہیں یہی کامل انسانوں کے علامات ہیں۔۔۔۔ اگر ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویاں نہ کرتے توہمیں کیونکر سمجھ آسکتا کہ خدا کی راہ میں جاں فشانی کے موقع پر آپ ایسے بے تعلق تھے کہ گویا آپ کی کوئی بھی بیوی نہیں تھی مگر آپ نے بہت سی بیویاں اپنے نکاح میں لاکرصدہا امتحانوں کے موقعہ پر یہ ثابت کردیا کہ آپ کو جسمانی لذات سے کچھ بھی غرض نہیں اور آپ کی ایسی مجردانہ زندگی ہے کہ  کوئی چیز آپ کو خدا سے روک نہیں سکتی۔تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ 11لڑکے پیداہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے اور آپ نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اورخدا کی طرف جاؤں گا۔ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جو لخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلتا تھا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھے مقدّم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ آپ بالکل دُنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے۔۔۔۔یہ آپؐ ہی کی سنت مسلمانوں میں اب تک جاری ہے کہ کسی عزیز کی موت کے وقت کہا جاتا ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔۔۔اگر آنجناب بیویاں نہ کرتے اور لڑکے پیدا نہ ہوتے تو ہمیں کیونکر معلوم ہوتا کہ آپ خدا کی راہ میں اس قدر فداشدہ ہیں کہ اولاد کو خدا کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے۔“

(چشمہٴ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ299-300)

11بیٹے ہونے کے متعلق حوالہ

کتاب مدارج النبوۃ کا حوالہ

اور جہاں تک معترض کا “کم علمی ”  کا اعتراض ہے ، اس کے جواب میں امت محمدیہ کے معروف بزرگ  شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا بیان کردہ حوالہ پیش ہے:۔

“مواہب لدنیہ نے دار قطنی سے نقل کیا ہے کہ طیب و طاہر، عبد اللہ کے سوا ہیں(یعنی طیب ، طاہر ، عبد اللہ ، قاسم اور ابراہیم) اس بناء پر صاحبزادگان کی تعداد پانچ ہو جاتی ہے اور کل تعداد نو ہوتی ہے۔ اور بعض لوگوں نے نقل کیا ہے کہ طیب  و مطیب ایک حمل سے، اور طیب و طاہردوسرے حمل سے متولد ہوئے۔ اس قول کو صاحب صفوة نے بیان کیا ہے۔ اس لحاظ سے کل تعداد گیارہ بن جاتی ہے اور بعض سے منقول ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ایک فرزند رسول صلی اللہ علیہ وسلم متولد ہوا تھا اور اس کا نام عبد مناف رکھا گیا تھا۔ اس طرح کل (اولاد کی)تعداد بارہ ہو جاتی ہے۔ بجز عبد مناف کے سب کے سب عہد اسلام میں پیدا ہوئے۔ اور ابن اسحاق نے کہا کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کے سب فرزندان، عہد اسلام سے پہلے پیدا ہوئے اور سب نے شیر خوارگی کے زمانہ میں وفات پائی۔ایک دوسرے شخص کا قول گزر چکا ہے کہ عبداللہ بعد از نبوت پیدا ہوئے اسی بناء پر ان کا نام طیب و طاہر رکھا گیا۔ تمام اقوال سے آٹھ فرزندان رسول کی تعداد حاصل ہوئی۔ “

(مدارج النبوة ، جلد دوم صفحہ 771۔تصنیف حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ، ترجمہ :الحاج مفتی غلام معین الدین نعیمی)

مندرجہ بالا لنک پر کلک کر کے قارئین کرام اصل حوالہ کا صفحہ ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…