اعتراض: صاحب نے مسلمانوں کو جنگل کے سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیوں سے بڑھ کرکہا ہے

اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے دشمنوں کو جنگل کے سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیوں سے بڑھ کرکہا ہے۔اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے مخاطب مسلمان ہیں۔

معترضہ شعرکا سیاق و سباق

معترضہ شعر

اِنَّ الْعِدَا صَارُوا خَنَازِیرَ الْفَلا

وَنِسَاؤُھُمْ مِنْ دُونِھِنَّ الْاَ کْلَبُ

ترجمہ :۔ دشمن ہمارے ، بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد41صفحہ 53)

معترضہ شعر کا سیاق و سباق

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لئے اپنی طبعی غیرت کے فطرتی جوش سے آپ ؑ کے ناموس کا دفاع کرتے ہوئےیہ نظم ان گندہ دہن اور بد زبان عیسائی پادریوں کے بارہ میں تحریر فرمائی ہے جو آنحضرت ﷺ کو گالیاں دیتے تھے اور گلشن اسلام کو اجاڑ کر ویران جنگلوں کی مانند بنا رہے تھے ۔ اسی طرح اس نظم میں آپ ؑ نے عیسائیوں کی نام نہاد منّاد عورتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو سادہ لوح مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو کر انہیں ہر قسم کے لالچ اور ہر نوع کی ترغیب دے کر اسلام سے مرتد کر رہی تھیں۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

حِبٌّ لَّنَا فَبِحُبِّہ نَتَحَبَّبُ                                                              وَعَنِ الْمَنَازِلِ وَالْمَرَاتِبِ نَرْغَبُ

اِنِّی اَرَی الدُّنْیَا وَ بَلْدَۃَ اَھْلِھا                                                    جَدَبَتْ وَاَرْضُ وِدَادِنَا لَا تَجْدَبُ

یَتَمَایَلُونَ عَلَی النَّعِیمِ وَ اِنَّنَا                                                  مِلْنَا اِلَی وَجْہٍ یَسُرُّ وَ یُطْرِبُ

اِنَّا تَعَلَّقْنَا بِنُورِ حَبِیْبِنَاؐ                                                                حَتَّی اِسْتَنَارَ لَنَا الَّذِی لَایَخْشَبُ

اِنَّ الْعِدَا صَارُواْخَنَازِیرَالْفَلَا                                                 وَنِسَاءُ ھُمْ مِنْ دُوْنِھِنَّ الاَ کْلَبُ

سَبُّوا وَمَا اَدْرِی لِاَیِّ جَرِیمَۃٍ                                                  سَبُّوا اَنَعْصِی الْحِبَّ اَوْ نَتَجَنَّبُ

قَسَمْتُ اَنِّی لَنْ اُفَارِقَہُ وَلَوْ                                                           مَزَّقَتْ اُسُوْدٌ جُثَّتِی اَوْ اَذْءُ بُ

ذَھَبَتْ رِیَاسَاتُ اْلاُنَاسِ بِمَوتِھِمْ                                                  و لَنَا رِیَاسَۃُ خُلَّۃٍ لَا تَذْھَبُ

ترجمہ:۔ہمارا ایک دوست ہے (یعنی حضرت محمّدمصطفی ﷺ ۔ ناقل)۔ا ور ہم اس کی محبت سے پر ہیں اور مراتب اور منازل سے ہمیں بے رغبتی اور نفرت ہے۔

میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اور اس کے طالبوں کی زمین قحط زدہ ہو گئی ہے۔ یعنی جلدی تباہ ہو جائے گی اور ہماری محبت کی زمین کبھی قحط زدہ نہیں ہو گی۔

لوگ دنیا کی نعمت پر جھکتے ہیں۔ مگر ہم اس منہ کی طرف جھک گئے ہیں جو خوشی پہنچانے والا اور طرب انگیز ہے۔

ہم اپنے پیارے کے دامن سے اویختہ ہیں ایسے کہ جو صاف اور شفاف نہیں ہو سکتا وہ بھی ہمارے لئے منور ہو گیا۔

دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے۔ اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔

اور انہوں نے گالیاں دیں اور میں نہیں جانتا کیوں دیں کیا ہم اس دوست کی مخالفت کریں یا اس سے کنارہ کریں۔

میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اس سے علیحدہ نہیں ہونگا اگرچہ شیر یا بھیڑیا مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔

لوگوں کی ریاستیں ان کے مرنے کے ساتھ جاتی رہیں اور ہمارے لئے دوستی کی وہ ریاست ہے جو قابل زوال نہیں۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد14صفحہ 53 ، 54 )

آٹھ شعروں پر مشتمل اس نظم میں نہ کسی  مولوی کا اور نہ ہی اس میں مسلمانوں کے کسی بھی طبقہ کا ذکر ہےمعترضین نے اس نظم کے پانچویں شعر کو ہدفِ اعتراض بنایا ہے جس کی تشریح شعر نمبر 6کرتا ہے۔ لیکن اس شعر کو وہ عملاً چھپا گئے ہیں ۔کیونکہ اس میں گالیاں دینے والوں کا ذکر ہے اور اس محبوب کا ذکر ہے جس کو گالیاں دی گئیں۔ اس شعر میں مسلمانوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ محبوب خدا حضرت محمّد مصطفی ﷺ کو گالیاں نہیں دے سکتے ۔

نہ ہی اس میں مسلمانوں کے کسی بھی طبقہ کا ذکر ہےمعترضین نے اس نظم کے پانچویں شعر کو ہدفِ اعتراض بنایا ہے جس کی تشریح شعر نمبر 6کرتا ہے۔ لیکن اس شعر کو وہ عملاً چھپا گئے ہیں ۔کیونکہ اس میں گالیاں دینے والوں کا ذکر ہے اور اس محبوب کا ذکر ہے جس کو گالیاں دی گئیں۔ اس شعر میں مسلمانوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ محبوب خدا حضرت محمّد مصطفی ﷺ کو گالیاں نہیں دے سکتے ۔

 

معترضہ شعرکا سیاق و سباق

معترضہ شعر

اِنَّ الْعِدَا صَارُوا خَنَازِیرَ الْفَلا

وَنِسَاؤُھُمْ مِنْ دُونِھِنَّ الْاَ کْلَبُ

ترجمہ :۔ دشمن ہمارے ، بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد41صفحہ 53)

معترضہ شعر کا سیاق و سباق

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لئے اپنی طبعی غیرت کے فطرتی جوش سے آپ ؑ کے ناموس کا دفاع کرتے ہوئےیہ نظم ان گندہ دہن اور بد زبان عیسائی پادریوں کے بارہ میں تحریر فرمائی ہے جو آنحضرت ﷺ کو گالیاں دیتے تھے اور گلشن اسلام کو اجاڑ کر ویران جنگلوں کی مانند بنا رہے تھے ۔ اسی طرح اس نظم میں آپ ؑ نے عیسائیوں کی نام نہاد منّاد عورتوں کا بھی ذکر کیا ہے جو سادہ لوح مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہو کر انہیں ہر قسم کے لالچ اور ہر نوع کی ترغیب دے کر اسلام سے مرتد کر رہی تھیں۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

حِبٌّ لَّنَا فَبِحُبِّہ نَتَحَبَّبُ                                                              وَعَنِ الْمَنَازِلِ وَالْمَرَاتِبِ نَرْغَبُ

اِنِّی اَرَی الدُّنْیَا وَ بَلْدَۃَ اَھْلِھا                                                    جَدَبَتْ وَاَرْضُ وِدَادِنَا لَا تَجْدَبُ

یَتَمَایَلُونَ عَلَی النَّعِیمِ وَ اِنَّنَا                                                  مِلْنَا اِلَی وَجْہٍ یَسُرُّ وَ یُطْرِبُ

اِنَّا تَعَلَّقْنَا بِنُورِ حَبِیْبِنَاؐ                                                                حَتَّی اِسْتَنَارَ لَنَا الَّذِی لَایَخْشَبُ

اِنَّ الْعِدَا صَارُواْخَنَازِیرَالْفَلَا                                                 وَنِسَاءُ ھُمْ مِنْ دُوْنِھِنَّ الاَ کْلَبُ

سَبُّوا وَمَا اَدْرِی لِاَیِّ جَرِیمَۃٍ                                                  سَبُّوا اَنَعْصِی الْحِبَّ اَوْ نَتَجَنَّبُ

قَسَمْتُ اَنِّی لَنْ اُفَارِقَہُ وَلَوْ                                                           مَزَّقَتْ اُسُوْدٌ جُثَّتِی اَوْ اَذْءُ بُ

ذَھَبَتْ رِیَاسَاتُ اْلاُنَاسِ بِمَوتِھِمْ                                                  و لَنَا رِیَاسَۃُ خُلَّۃٍ لَا تَذْھَبُ

ترجمہ:۔ہمارا ایک دوست ہے (یعنی حضرت محمّدمصطفی ﷺ ۔ ناقل)۔ا ور ہم اس کی محبت سے پر ہیں اور مراتب اور منازل سے ہمیں بے رغبتی اور نفرت ہے۔

میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اور اس کے طالبوں کی زمین قحط زدہ ہو گئی ہے۔ یعنی جلدی تباہ ہو جائے گی اور ہماری محبت کی زمین کبھی قحط زدہ نہیں ہو گی۔

لوگ دنیا کی نعمت پر جھکتے ہیں۔ مگر ہم اس منہ کی طرف جھک گئے ہیں جو خوشی پہنچانے والا اور طرب انگیز ہے۔

ہم اپنے پیارے کے دامن سے اویختہ ہیں ایسے کہ جو صاف اور شفاف نہیں ہو سکتا وہ بھی ہمارے لئے منور ہو گیا۔

دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے۔ اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔

اور انہوں نے گالیاں دیں اور میں نہیں جانتا کیوں دیں کیا ہم اس دوست کی مخالفت کریں یا اس سے کنارہ کریں۔

میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اس سے علیحدہ نہیں ہونگا اگرچہ شیر یا بھیڑیا مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔

لوگوں کی ریاستیں ان کے مرنے کے ساتھ جاتی رہیں اور ہمارے لئے دوستی کی وہ ریاست ہے جو قابل زوال نہیں۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد14صفحہ 53 ، 54 )

آٹھ شعروں پر مشتمل اس نظم میں نہ کسی  مولوی کا اور نہ ہی اس میں مسلمانوں کے کسی بھی طبقہ کا ذکر ہےمعترضین نے اس نظم کے پانچویں شعر کو ہدفِ اعتراض بنایا ہے جس کی تشریح شعر نمبر 6کرتا ہے۔ لیکن اس شعر کو وہ عملاً چھپا گئے ہیں ۔کیونکہ اس میں گالیاں دینے والوں کا ذکر ہے اور اس محبوب کا ذکر ہے جس کو گالیاں دی گئیں۔ اس شعر میں مسلمانوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ محبوب خدا حضرت محمّد مصطفی ﷺ کو گالیاں نہیں دے سکتے ۔

نہ ہی اس میں مسلمانوں کے کسی بھی طبقہ کا ذکر ہےمعترضین نے اس نظم کے پانچویں شعر کو ہدفِ اعتراض بنایا ہے جس کی تشریح شعر نمبر 6کرتا ہے۔ لیکن اس شعر کو وہ عملاً چھپا گئے ہیں ۔کیونکہ اس میں گالیاں دینے والوں کا ذکر ہے اور اس محبوب کا ذکر ہے جس کو گالیاں دی گئیں۔ اس شعر میں مسلمانوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے کیونکہ وہ محبوب خدا حضرت محمّد مصطفی ﷺ کو گالیاں نہیں دے سکتے ۔

 

پادریوں کے بارہ میں سخت زبان کیوں استعمال فرمائی؟

جہاں تک اس شعر کی تشریح کا تعلق ہے وہ ہمیں کتاب ’’ نجم الہدیٰ‘‘ میں کھلے کھلے لفظوں میں جابجا ملتی ہے اور ثابت کرتی ہے کہ شعر زیر بحث میں مذکور اعداء مسلمانوں میں سے نہیں تھے بلکہ عیسائیوں میں سے تھے۔ اور ان کی دشمنی کا ہدف آنحضرت ﷺ،اسلام اور مسلمان تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

وکُلُّ اَحَدٍ مِنَ القَسُوسِ طَعَنَ فِی دِینِنَا ومَا اِلَّا وَسَبَّ نَبِیَّنَا وشَتَمَ وَقَذَفَ وقَلَا وَتَجِدُونَھُم فی عَقِیدَتِھِمْ مُتَصَلِّبِینَ ومِنَ التَّعَصُّبِ مُتَلَھِّبِینَ وعَلی جُھلَاِتھم مُتَفَقِّیْن وقَدْ صَنَّفُوا فِی اَقْرَبِ مُدَّۃٍ کُتُبًا زھَاءَ مِاَۃَ اَلفٍ نُسْخَۃً وَمَا تَجِدُونَ فِیھَا اِلَّا تَوھِیْنَ الْاِسلاَمِ وبُھْتَانًا وتُھْمۃً ومُلِئَتْ کُلُّھَا مِن عُذْرَۃٍ لانَستَطِیعُ اَنْ نَنْظُرَ اِلَیھَا نَظْرَۃً

ترجمہ:۔ اور پادریوں نے ہمارے دین کی نسبت کوئی دقیقہ طعن کا اٹھا نہیں رکھا ۔ اور ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں دیں اور بہتان لگائے اور دشمنی کی اور تم دیکھتے ہو کہ وہ اپنے عقیدے میں کیسے سخت ہو گئے ہیں اور کیسے تعصب سے افر وختہ ہیں اور اپنی باطل باتوں پر کیسے اتفاق کئے بیٹھے ہیں۔ اور تھوڑی مدّت سے ایک لاکھ کتاب انہوں نے ایسی تالیف کی ہے جس میں ہمارے دین اور رسول اللہ ﷺ کی نسبت بجز گالیوں اور بہتان اور تہمت کے اور کچھ نہیں اور ایسی پلیدی سے وہ تمام کتابیں پُر ہیں کہ ہم ایک نظر بھی ان کو دیکھ نہیں سکتے۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 64)

پھر فرمایا :۔

ترجمہ :۔’’پس ہر ایک شخص جو ان کے دین میں داخل ہوتا ہے اس کے لئے وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے اور اس کا تفرقہ اور پراگندگی دور کی جاتی ہے اور پادریوں کے مال نے ان کی بات کو قوی کر دیا ہے اور ان کی حیلہ سازی اس سے بڑھ گئی ہے۔ شکار کرنے اور قید کرنے کے تمام ہتھیار ان کو مل گئے ہیں۔اور چھوٹی بڑی فلاخنیں تمام استعمال میں لا رہے ہیں۔ اور ہر ایک شہر کی طرف ایک جماعت نو عیسائیوں کی بھیجی گئی ہے اور انہوں نے ہر ایک شہر میں اپنے گرجے بنائے اور مقیموں کی طرح وہاں رہنے لگے۔ اور سیلاب کی طرح مسلمانوں کے کوچوں میں بہنے لگے اور طرح طرح کے افتراؤں سے اس شہر کے باشندوں کو دھوکے دینے لگے۔ پھر اپنی عورتیں اسی غرض کے لئے شریفوں کے گھروں میں بھیجیں۔ پس حاصل کلام یہ کہ انہوں نے ہر ایک طور سے مکر کا بیج بویا۔ اور ٹڈی کی طرح ان اطراف میں منتشر ہو گئے۔ اور ہر ایک کو جو ہدایت کے نشانوں کو زندہ کرتا تھا دشمن پکڑا اور ہمارے ملک کو بلا اور موت کی جگہ بنا دیا اور ان کے مذہب باطل نے ہمارے ملک کی نیکیوں کو دور کر دیا اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں یہ مذہب باطل داخل نہ ہوا اور اس ملک کے باشندے جو اکثر عوام میں ہیں مقابلہ کی تاب نہ لا سکے اور نہ گریز کے لئے کوئی حیلہ ملا پس اسلام پر وہ مصیبتیں پڑیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ہے ۔ پس وہ اس شہر کی طرح ہو گیا جو مسمار ہو جائے اور اس جنگل کی طرح جو وحشیوں سے بھر جائے۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ 66 ، 67)

پھر فرمایا :۔

ترجمہ :۔’’پس خدا تعالیٰ نے ایک انسان کو مسیح کے نام پر ملّتِ اسلامیہ میں بھیجا تا اس امّت کی بزرگی ظاہر ہو۔ اور یہ بھیجنا اس وقت ہوا کہ جب فساد کمال کو پہنچ گیا اور لوگ کثرت سے مرتد ہونے لگے اور ذیاب نے تباہی ڈالی اور کلاب نے آوازیں بلند کیں اور بہت سی کتابیں گالیوں سے بھری ہوئی تالیف کی گئیں۔ اور جھوٹ کی فوجوں اور ان کے سواروں اور پیادوں نے اسلام پر چڑھائی کی۔ اور زمین پر ایک زلزلہ آیا۔ اور گمراہی کمال کو پہنچ گئی اور ظالموں کی کارروائی لمبی ہو گئی۔ اور خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ مسیح موعود کے ساتھ صلیب کو توڑے گا اور اپنے عہدوں کو پورا کرے گا اور خدا تعالیٰ تخلّف وعدہ نہیں کرتا۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ 77 ، 78)

یہ عبارتیں صاف بتا رہی ہیں کہ کتاب ’’ نجم الہدیٰ‘‘ کی نظم ونثر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے محبوب حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی ارفع شان اور اسلام کی عظمت کا ذکر فرمایا ہے اور رسول خدا ﷺ کی خاطر اپنی طبعی غیرت اور محبّت بیان فرمائی ہے اسی طرح عیسائیوں کی یلغار اور ان کی کاروائیوں کا ذکر کر کے اس جنگل کی بھی نشاندہی فرمائی ہے ۔جس میں عیسائی پادری پھرنے لگے تھے اور ان کی عورتوں کی ’’کارروائیوں‘‘ کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔ الغرض اس نظم کا سارا سباق اس کی تشریح کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسائی ہیں اور آنحضرت ﷺ کو گالیاں دینے والے ہیں لیکن اس کے باوجودمعترضین کا تکرار کرتے چلے جانا کہ اس شعر سے وہ اور دوسرے مسلمان مراد ہیں سمجھ سے بالا تر ہے۔

اس شعر کے مخاطب مسلمان نہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نظم نہ تو مسلمانوں کے بارہ میں لکھی ہے اور نہ ہی وہ اس شعر کے مخاطب ہیں ۔اس میں صرف وہ عیسائی پادری اور عیسائی عورتیں مراد ہیں جو نبی کریمﷺ کی اہانت میں اسقدر بڑھ گئے کہ انھوں نے کوئی شب و شتم اور دریدہ دہنی کی کسر  نہ چھوڑی۔

معترضہ شعر سے اگلا شعر بھی اسکی تصدیق کرتا ہے :

سَبُّوا وَمَا أَدْرِی لاَیِّ جَرِیمَۃٍ

سَبُّوا أَنَعْصِی الْحِبَّ أَوْ نَتَجَنَّبُ

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد41صفحہ 53)

ترجمہ :  انہوں نے گالیاں دیں اور میں نہیں جانتا کیوں دیں کیا ہم اُس دوست کی مخالفت کریں یا اُس سے کنارہ کریں ۔

یعنی جنہیں حضورؑ نے سخت کلمات کہے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو گالیاں دیں اور ظاہر ہے کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا۔ خلاصہ کلام یہ کہ مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کے مسلمان مصداق ہی نہیں ہیں حتّٰی کہ سارے عیسائی بھی مراد نہیں ہیں بلکہ ’’اَلْعِدَاء ‘‘ میں صرف دشمن عیسائیوں کا ذکر ہے ۔ سب منکرین کا قطعاً ذکر نہیں ہے ۔ چنانچہ اس کی مثال سورہ مائدہ :61میں بڑی واضح طور پر ملتی ہے ۔ اس جگہ بھی سارے اہلِ کتاب مراد نہیں بلکہ بعض اہل کتاب کے بارہ میں اﷲ تعالٰی نے فرمایا وَجَعَلَ مِنْھُمُ القِرَدَۃَ وَالخَنَازِیْر کہ وہ اپنے کردار کے اعتبار سے بندر اور خنزیر ہو گئے اسی طرح دشمن پادری خنزیروں کیطرح اسلام اور بانی اسلام پر گندے حملے کرتے ہیں اور ’’ نِسَاءُ ھُمْ ‘‘ یعنی ان کی(پادری) عورتیں اسلام اور بانی اسلام کے خلاف زبان درازی کرتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مؤقف

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

ترجمہ:۔اور ہمیں حکم ہے کہ ہم نرمی اور حلم کے ساتھ حجّت پوری کریں اور بدی کے عوض میں بدی نہ کریں۔ مگر اس صورت میں جب کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینےاور اہانت کرنے اور فحش گوئی میں حدّ سے بڑھ جائے ۔ پس ہم عیسائیوں کو گالی نہیں دیتے۔ اور دشنام اور فحش گوئی اور ہتکِ عزّت سے پیش نہیں آتے اور ہم صرف ان لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے نبی ﷺ کو بصراحت یا اشارات سے گالیاں دیتے ہیں ۔ اور ہم ان پادری صاحبوں کی عزّت کرتے ہیں جو ہمارے نبی ﷺ کو گالیاں نہیں دیتے اور ایسے دلوں کو جو اس پلیدی سے پاک ہیں ہم قابلِ تعظیم سمجھتے ہیں اور تعظیم وتکریم کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں اور ہمارے کسی بیان میں کوئی ایسا حرف اور نقطہ نہیں ہے جو ان بزرگوں کی کسر شان کرتا ہو اور صرف ہم گالی دینے والوں کی گالی ان کے منہ کی طرف واپس کرتے ہیں تا ان کے افترا کی پاداش ہو۔

(نجم الہدیٰ ۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ79-80بقیہ حاشیہ )

یہ عبارت روزِ روشن کی طرح ظاہر کرتی ہے کہ اس کتاب میں حضرت محمّد مصطفی ﷺ کے ناموس کی حفاظت اور اس کے لئے غیرت میں اٹھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت قلم کا نشانہ صرف فحش گو ،دریدہ دہن پادری تھے نہ کہ سارے پادری یا سارے عیسائی چہ جائیکہ مسلمان عوام اس کا مصداق ہو سکتے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…