اعتراض: مرزا صاحب نے قادیان کو مکہ پر فضیلت دی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عبارت ’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے ‘‘پیش کرکے اعتراض کیا جاتا ہے کہ گویا آپؑ نے قادیان کو مکہ پر فضیلت دی ہے ۔

خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے وجود کی صحبت سب سے زیادہ افضل ہوتی ہے

معترضہ عبارت:۔ ’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ(قادیان میں آنا۔ناقل)نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر۔کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام صفحہ352۔مندرجہ روحانی خزائن جلد5صفحہ352)

جواب:۔

معترض نے آئینہ کمالات اسلام کا جو حوالہ پیش کیاہے ہم اسے مکمل درج کرتے ہیں جس سے حقیقت واضح ہو جائے گی۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :۔

’’تیسرا سوال آپ کا استخارہ کیلئے ہے جو درحقیقت استخبارہ ہے۔ پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں۔ مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اور غصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے۔ تب وہ شخص جو اس کا دشمن ہے اس کو خواب میں کتے یا سؤر کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ شاید درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سؤر ہی ہے لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آوے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے۔ بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا۔ سو میر امطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یافتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے۔ میں یہ عہد نہیں کر سکتا کہ ہر یک شخص کو ہر یک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط مندرجہ نشان آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ ہی مشکل نہیں لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربّانی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ۔روحانی خزائن جلد5 ص351تا352)

سیاق وسباق سے واضح ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ مامور من اللہ کی پہچان کے لیے خدا تعالی کے حضور دعا کرنے کی تلقین فرما رہے ہیں ۔خدا تعالی کی طرف سے مامور شخص کو ماننا ضروری ہوتا ہے۔اس لیے اس مامور کی اہمیت اس زمانہ میں سب سے زیادہ ہوتی ہے اس سلسلہ آسمانی کو ماننا خدا کا حکم ہوتا ہے اس لیے اس کی جستجو کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔

اگر کوئی تعصب کے زہر سے بھری نظر سے دیکھے تو اس سے ہماری بحث نہیں لیکن عام شریف النفس انسان سمجھ سکتا ہے کہ قادیان کے بارہ میں جو الفاظ ہیں ان سے بہت زیادہ قوّت سے حضرت صوفی کامل خواجہ غلام فرید علیہ الرحمۃ کے موطن چاچڑاں شریف کا ذکر کیا گیا ہے۔چنانچہ ان کے ایک مرید نے جو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا وہ آج سرائیکی علاقہ میں زبان زد عام ہے کہ

چاچڑ وانگ مدینہ ڈسےتے              کوٹ مٹھن بیت اللہ

ظاہر دے وچہ مرشد ہادی                باطن دے وچ اللہ

اس ذکر کو نہ اس وقت کسی نے محل اعتر اض سمجھا نہ اب سمجھا جا سکتا ہے ۔ ہر معقول آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں تبرکاً بیان کی جاتی ہیں اور یہ ظاھر کرنا مقصود ہو تا ہے کہ مکہ و مدینہ پر خدا تعا لیٰ کا نور برسا ہے تو ان کے طفیل ان بستیوں پر بھی خدا تعا لیٰ کی طرف سے برکتیں نا زل ہوتی ہیں ۔ ان بستیوں کو مکہ و مدینہ کے ہم مرتبہ قرار دینے کا نعوذ باللہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔چنانچہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی فرمایا کرتے تھے :ــ

’’یہ فقیر جہاں رہے گا وہیں مکہ اور  مدینہ اور روضہ ہے ‘‘۔

(خیر الافادات (ملفوظات مولانا اشرف علی تھانوی ) ناشر ادارہ اسلامیات لاہور ۔اگست 1982ء)

اسی طرح مولانا محمودالحسن نے مولوی رشید احمد گنگوہی کے مرثیہ میں کہا

پھریں تھے کعبہ میں بھی پو چھتے  گنگو ہ  کا رستہ

جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے زوق و شوق عرفانی

تمہاری  تربت انور کو  دیکر طور سے  تشبتہ

کہوں میں بار بار ارنی، میری دیکھی بھی نادانی

اب کیاسادہ اہل اسلام کو اشعال دلانے والے خصوصاً وہ جو دیو بندی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نہایت محترم بزرگ کے یہ الفاظ  ہیں ۔کیا ان پر کفر کا فتویٰ لگایا جا سکتا ہے ؟

حضرت بابا فرید الدین ؒگنج شکر نے فرما یا کہ

’’درویش کو ستر ہزار مقامات طے کرنے پڑتے ہیں ان سے پہلے ہی مقام پر درویش کے لئے یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ہر روز پانچوں وقت کی نماز عرش معلیّ کے گرد کھڑے ہو کر ساکنان عرش کے ہمراہ ادا کرتا ہے اور جب وہاں سے درویش واپس آتا ہے تو ہر وقت اپنے آپ کو خانہ کعبہ میں دیکھتا ہے اور درویش جب وہاں واپس آتا ہے تو تمام جہان کو اپنی انگلیو ں کے درمیان دیکھتا ہے ‘‘

(انوارِ صابرین صفحہ118)

سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ   فرماتے ہیں :۔

’’مجھے ایک مرتبہ حج خانہ کعبہ کا بڑا شوق ہوا۔میں نے حج کے لئے جانے سے پہلے ارادہ کیا کہ ایک بار پاک پتن شریف حاضری دے لوں ۔چنانچہ جب میں پاک پتن شریف پہنچا اور حضور شیخ الاسلام حضرت بابا صاحبؒ  کی زیا رت سے مشرف  ہوا تو میرا مقصود حج پورا ہوا،اور مزید انعامات الٰہی نصیب ہوئے اور فرمایا کہ کچھ مدت کے بعد پھر حج کا شوق غالب ہوا تو پھر پاکپتن  شریف حاضر ہوا ۔اللہ کریم نے خصوصی انعامات سے نوازا۔حضور سلطان المشائخ نے آبدیدہ ہو کر زبان مبارک سے فرمایا

’’آں راہ بسوئے کعبہ برووایں بسوئے دوست‘‘

(انور صابریؒ از حافظ عبیداللہ صابری۔ اسلامی کتب خانہ گوجرانوالہ صفحہ172)

ترجمہ :۔وہ تو سوئے کعبہ رواں ہے اور یہ (یعنی میں )دوست کی طرف جا رہا ہوں ۔

پس جس طرح مندرجہ بالا تحریرات سے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کی توہین نہیں ہوتی ، ویسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ سےبھی ان مقامات مقدسہ کی توہین مذکور نہیں نہ ہی حج جیسے بنیادی رکن  ِ اسلامی کی تحقیر مقصود ہے ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…