حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے نعوذباللہ حضرت مریم علیھا السلام پر زنا کی تہمت لگائی۔

معترضہ حوالہ کو مکمل پڑھا جانا چاہیے

معترضہ تحریر :۔

’’ مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیاتھا تا وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو۔ اور تمام عمر خاوند نہ کرے۔ لیکن جب چھ سات مہینہ کا حمل نمایاں ہوگیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام ایک نجّار سے نکاح کر دیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا۔ وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔ ‘‘

(چشمہ مسیحی۔ رخ جلد 20ص355،356)

جواب

یہ جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مریم پر زنا کا الزام لگایا ہے  ۔ اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ آپؑ نے اپنی طرف سے انکے یوسف نجار کے ساتھ نکاح پر کوئی اعتراض کیا ہے ۔ یہ اعتراض کہ حضرت مریم ؑ نے باوجود ہیکل کی خدمت کا عہد کرنے کے، حمل کے سات مہینے بعد یوسف کے ساتھ نکاح کیوں کر لیا۔ یہ حضرت مسیح موعودؑ کا اعتراض نہیں بلکہ انجیل کی تعلیم کی رو سے یہودیوں کا اعتراض ہے جس کو حضرت مسیح موعودؑ نے عیسائیوں کے بالمقابل درج کیا ہے ۔ مکمل حوالہ ملاحظہ ہو :۔

مکمل حوالہ :۔

’’یہ لوگ اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے اور نہیں دیکھتے کہ انجیل کس قدر اعتراضات کا نشانہ ہے۔ دیکھو یہ کس قدر اعتراض ہے کہ مریم کو ہیکل کی نذر کر دیا گیاتھا تا وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو۔ اور تمام عمر خاوند نہ کرے۔ لیکن جب چھ سات مہینہ کا حمل نمایاں ہوگیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام ایک نجّار سے نکاح کر دیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا۔ وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔‘‘

(چشمہ مسیحی۔ رخ جلد 20ص355،356)

گویا یہ اعتراض انجیل پر وارد ہوتا ہے ۔اس کے بعد حضورؑ فرماتے ہیں :۔

’’ہم قرآن شریف کی رو سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ حمل محض خدا کی قدرت سے تھا۔‘‘

(چشمہ مسیحی۔ رخ جلد 20ص356)

حضورؑ کا یہ فرمانا کہ آپؑ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ حمل خدا کی قدرت سے تھا اس اعتراض کو کلیتاً ختم کر دیتا ہے ۔

مزید برآں حضرت مسیح موعودؑکشتی نوح میں فرماتے ہیں :۔

’’ وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح مَیں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اسی قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہائت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیونکر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابلِ اعتراض۔ ‘‘

(کشتی نوح۔ رخ جلد19ص18)

لہٰذا حضرت مسیح  موعودؑ نے حضرت مریم ؑ پر کوئی تہمت نہیں لگائی چونکہ آپؑ کے  نزدیک حضرت مریم ؑ  ایک عظیم الشان نبی کی پاکبا ز ماں تھیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…