مکہ و مدینہ کی توہین کے الزام کا جواب

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓکی مندرجہ ذیل عبارت پر مکہ و مدینہ کی توہین کا الزام عائد کیا جاتا ہے :’’حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ جو باربار یہاں نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے پس جو قادیاں سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا۔ تم ڈرو کہ تم میں سے نہ کوئی کاٹا جائے پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا۔ آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے کیا مکہ اور مدینہ کی چھاتیوں سے یہ دودھ سوکھ گیا کہ نہیں؟‘‘ (حقیقۃ الرؤیا صفحہ 146)

اعتراض کا جواب

حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی تحریر کے حوالے سے یہ جو عبارت لکھی ہے اس میں حضرت مسیح موعودؑ نے احباب کو قادیان آنے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اپنے متعلق بھی یہ بیان فرمایا ہے کہ پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا ۔

یہاں دودھ سے تائید الٰہی کی طرف اشارہ ہے ۔یعنی اگر ہم سے فائدہ نہیں اٹھاؤ گے تو یہ دودھ سوکھ جائے گا۔ ماں کی چھاتی سے اگر بچہ پیتا نہ رہے تو دودھ سوکھ جاتا ہے ۔ مدینہ اور مکہ سے بھی فیض اٹھانے والوں نے جب فیض اٹھانا بند کر دیا تو اپنی تمام تر برکات کے باوجود مسلمان اپنی دینی اور علمی حالت میں گرتے چلے گئے اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔ کیاآج کا دور آنحضرت ﷺ اور خلفاء کے دور جیسا ہے ؟اگر نہیں تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بات ظاہر و باہر ہے ۔

دراصل بات یہ ہے کہ جوں جوں امتیں اپنے انبیاء کے زمانہ سے دور ہوتی جاتی ہیں توں توں ان کی ایمانی حالت میں کمی آتی جاتی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے بھی اپنے بعد تین قرون کو بہترین قرون قرار دیا اور اس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ قرار دیا ۔اسی طرح آپ نے اپنے ان صحابہ کے بارہ میں جو آپؐ کی تعلیم کو فرامو ش کر دیں گے فرمایا کہ ان کو قیامت کے دن دوزخ کی طرف لے جایا جائے گا(صحیح بخاری۔ کتاب التفسیر ۔ سورۃ المائدۃ) اور پھر مسلمانوں کی یہود سے مشابہت کرنے کے حوالے سے فرمایا کہ مسلمان یہود سے اس طرح مشابہت کر لیں گے جس طرح ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے ۔ اس جگہ ’’دودھ ‘‘کا لفظ استعارۃ استعمال فرمایا گیا ہے اور استعارہ کامطلب کبھی بھی حقیقی نہیں لیا جاتا ۔بلکہ کسی خاص حوالے سے مخصوص مطلب ہی کہنے والے کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے ۔دودھ کا لفظ استعارۃً علم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔اور دودھ کی جو تعبیر آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہے وہ اس جگہ پیش کرتے ہیں ۔چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک رؤیا میں آنحضرت ﷺ نے اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمرؓ کو دیا۔جب حضرت عمر ؓ کو اس رؤیا کے بارہ میں بتایا تو آپؓ نے دریافت فرمایا کہ آپ ؐاس سے کیا مراد لیتے ہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد علم ہے ۔

مکہ و مدینہ کی فضیلت از حضرت مسیح موعود علیہ السلام

اس اعتراض میں توہین کے پہلو کو کلیتاً رد کرنے کے لئے قارئین کی خدمت میں حضرت مسیح موعود ؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے مکہ و مدینہ کے بارہ میں مندرجہ ذیل تحریرات و واقعات پیش ہیں:۔

آپؑ فرماتے ہیں:۔

جان و دلم فدائے جمال محمد است                خاکم نثا رکوچہ آل محمد است

میری جان اور دل محمد ﷺ کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک نبی اکرم ﷺ کی آل کے کوچہ پر قربان ہے ۔

(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5۔ص645)

حضرت بانی جماعت احمدیہ کے فرزند حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ۔اے لکھتے ہیں :

’’ایک دفعہ گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کچھ طبیعت ناساز تھی اور آپ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت امّاں جان نوراللہ مرقدھا اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہوگیا ۔ حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لیے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہورہی ہے حج کو چلنا چاہئیے۔ اس وقت زیادہ حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ اپنے ہاتھ کی اُنگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھےحضرت ناناجان کی بات سُن کر فرمایا :

یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت ﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا۔

یہ ایک خالصتاً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سے بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اُس اتھاہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشقِ رسول ؐ کے متعلق حضرت مسیح موعود کے قلب صافی میں موجزن تھیں۔ حج کی کسے خواہش نہیں مگر ذرا اُس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاکؐ (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی چل پڑتی ہے ۔‘ ‘

(سیرۃ طیبہ ۔صفحہ35-36)

مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت از حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

یہ خیال کرنا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے نعوذباللہ مکہ و مدینہ کی ہتک کی ہے بالکل غلط ہے ۔ اس خیال کو مزید رد کرنے کے لئے آپؓ کی مندرجہ ذیل تحریر پیش ہے ۔ فرمایا :

’’ ہم تو یہ بھی پسند نہیں کر سکتے کہ خانہ کعبہ کی کسی اینٹ کو کوئی شخص بدنیتی سے اپنی اُنگلی بھی لگائے اور ہمارے مکانات کھڑے رہیں۔۔۔۔۔بے شک ہمیں قادیان محبوب ہے اور بے شک ہم قادیان کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں مگر خدا شاہد ہے خانہ کعبہ قادیان سے بدرجہا زیادہ محبوب ہے ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ خدا وہ دن نہیں لا سکتا لیکن اگر خدا نخواستہ کبھی وہ دن آئے کہ خانہ کعبہ بھی خطرہ میں ہو اور قادیان بھی خطرہ میں ہو اور دونوں میں سے ایک کو بچایا جاسکتا ہو تو ہم ایک منٹ بھی اِس مسئلہ پر غور نہیں کریں گے کہ کس کو بچایا جائے بلکہ بغیر سوچے کہہ دیں گے کہ خانہ کعبہ کو بچانا ہمارا او لین فرض ہے۔۔۔۔۔قادیان وہ مقدس مقام ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ مقدسہ کا خدا تعالیٰ نے دوبارہ حضرت مرزا صاحب کی صورت میں نزول کیا۔یہ مقدس ہے باقی سب دنیا سے مگر تابع ہے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ۔ ۔۔۔۔ مکہ و مدینہ قادیان سے بھی بلند شان رکھنے والے ہیں ۔ ‘‘

(خطبات محمود جلد 16ص541تا543)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…