اعتراض: میرعباس علی صاحب لدھیانوی بعد میں مرزا صاحب کے دشمن بن گئے حالانکہ ان کے بارہ میں مرزا صاحب کو الہام ہوا تھا اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُھَا فِی السَّمَاءِ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرعباس علی صاحب لدھیانوی کا ذکر بالخیراپنی کتاب ”ازالہ اوہام“ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں کیا۔بعد میں وہ بعض موسوسین کے وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعداء میں داخل ہوگئے حالانکہ ان کے متعلق، جب وہ مخلصین کی جماعت میں شامل تھے ،حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا تھا کہ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُھَا فِی السَّمَاءِ۔

اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :۔

“اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ اصل ا س کا ثابت ہے اور آسمان میں اس کی شاخ ہے۔اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں ۔بلاشبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے ۔جسپر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیرنہیں ۔افراد نوع انسان مختلف طور کے کانوں کی طرح ہیں ۔کوئی سونے کی کان ،کوئی چاندی کی کان،کوئی پیتل کی کان ۔پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں ۔اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے بلاشبہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق فطرتاً انکو حاصل ہوتے ہیں ۔خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سراسر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا۔ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجزحصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے موجب نجات اخروی نہیں ہو سکتی ۔کیونکہ اعلیٰ درجہ خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خداترسی ہے ۔اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں۔

علاوہ اس کے یہ الہام اس زمانہ کاہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت قدم رہونگا ۔سو خدا تعالیٰ نے ان کی اسوقت کی حالت موجودہ کی خبر دیدی۔یہ بات خداتعالیٰ کی تعلیمات وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبر دیتا ہے کسی کے کافر ہونے کی حالت میں ا س کا نام کافر ہی رکھتا ہے اور اس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے ۔خداتعالیٰ کی کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے ۔اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کرنے کے وقت نہ صرف آپ انہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں او ر دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا۔اوراس دس سال کے عرصہ میں جس قدر انہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے ان کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کرسکتا۔“

(آسمانی فیصلہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ نمبر343،344)

”اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے ا س قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگر خدا تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں تو کیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا ۔بہت سے الہامات صرف موجودہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں عواقب امور سے ان کو کچھ تعلق نہیں ہوتا۔

اورنیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کرسکتے ۔کیونکہ انسان کا دل اللہ جلشانہ کے قبضہ میں ہے۔میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کوایک دم میں حق کی طر ف پھیر سکتا ہے ۔غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے ۔مآل پر ضروری طور پر اس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے ۔بہتوں نے راستبازوں کو چھوڑدیا اور پکے دشمن بن گئے۔مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زار زار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے ۔انسان کا دل خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں ۔

سو میر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پید اہوئی او ر پھر قبض سے خشکی اوراجنبیت اور اجنبیت سے ترک ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استخفاف وتوہین پیدا ہوگیا ۔عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے ۔کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا ۔مالک الملک جوچاہتا ہے کرتا ہے۔میرے دوستوں کو چاہیے کہ انکے حق میں دعا کریں ۔اور اپنے بھائی فروماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ دعا کرونگا ۔“

(آسمانی فیصلہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ نمبر344،345)

”یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا ۔آج اس کی حالت کیا ہے۔پس خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پرقائم رکھے اور لغزش سے بچاوے ۔ “

(آسمانی فیصلہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ نمبر345)

”مجھے اگر چہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جبکہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا۔یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو انکے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جنکی تعریف میں وحی الٰہی بھی نازل ہوگئی تھی آخر حضرت مسیح سے منحرف ہو گئے تھے ۔یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کا تھا ۔“

(آسمانی فیصلہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 346)

”․اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے․․․․․․․لیکن آخر میاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھلائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہوکر اور ان کی طرف اشارہ کرکے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر لعنت بھیجتا ہوں۔میرصاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں ۔کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو۔میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اوراَصْلُھَا ثَابِتٌ کی ضمیر تانیث بھی اسکی طرف ایک اشارہ کر رہی تھی ۔لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا ۔میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جنکو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکادیا کہ یہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے

(آسمانی فیصلہ ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 4 صفحہ 346)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ” اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُھَا فِی السَّمَاءِ “جس پر اعتراض کیا گیا ہے وہ مکتوبات احمدجلد اول میں موجود ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میر عباس علی صاحب کو بھیجے گئے ایک خط میں تحریر فرمایا :

مشفقی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔آپ کا عنایت نامہ معہ ایک ہنڈوی مبلغ بیس روپیہ بابت خریداری دو جلد کتب پہنچا۔ جزاکم  اللہ خَیرًا وَھُوَ یَسْمَعُ وَ یَرٰی۔میں آپ کی مساعی پر نظر کر کے آپکی قبولیت کا بہت امید وار ہوں۔خصوص ایک عجیب کشف سے جو مجھ کو 30 دسمبر1882ءبروز شنبہ کو یکدفعہ ہوا۔ آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نا معلوم الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی۔جو باشندہ لودہیانہ ہے۔اس عالم کشف میں اس کا تمام پتہ و نشان ،سکونت بتلا دیا جو اب مجھ کو یاد نہیں رہا۔صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہیانہ اور اس کے بعد اسکی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا۔سچا ارادت مند اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُھَا فِی السَّمَاءِ ۔یعنی اسکی ارادت ایسی قوی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ تزلزل ہے نہ نقصان ہے ۔کئی پادریوں اور ہندوؤں اور برہمو لوگوں کو کتابیں دی گئی ہیں او ر وہ کچھ جان کنی کر رہے ہیں۔”

(مکتوبا ت احمد۔ جلد اول صفحہ 510)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

اعتراض بابت نزول قرآنی آیات

مرزا صاحب پر وہی قرآنی آیات نازل ہوئیں جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی تھیں۔جیسے و رفعنا لک ذکرک،،…