اعتراض:نبی شاعر نہیں ہوتا لیکن مرزا صاحب شاعر تھے

قرآن مجید میں ہےوَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ (یٰسٓ:70) اور ہم نے اس کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے شایان شان ہے ۔نیزوَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ (الشعراء:225)اور شاعر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی گمراہ لوگ پیروی کرتے ہیں ۔اس لیے نبی شاعر نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب شاعر تھے۔

شاعر کی بنیادی تعریف

بیشک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرتﷺ شاعر نہ تھے اور قرآن مجید نے شاعر کی تعریف بھی کردی ہے۔ فرمایا:

أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيْمُونَ o وَأَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ o (الشعراء 226-227)

کہ کیا تو نہیں دیکھتا کہ شاعر ہر وادی میں سرگردان پھرتے ہیں یعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ گویا شاعر وہ ہے۔

            i۔        جو ہوائی گھوڑے دوڑائے ۔خیالی پلاؤ پکائے۔

            ii۔       اس کے قول او ر فعل میں مطابقت نہ ہو۔

     فرمایا۔ وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ (یس ۔70)

ہم نے آنحضرت ﷺ کو ہوائی گھوڑے دوڑانا اور محض باتیں بنانا نہیں سکھایا ۔ حضرت مسیح موعود  ؑ کے کلام میں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں۔ آپؑ کا کلام تو حمد و نعت سے بھرا پڑا ہے اور اس میں عام شعراء کے کلام کی طرح نہ تو ہوائی گھوڑے دوڑائے گئے ہیں اور نہ آپؑ کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ سے قرآن کی کیا مراد ہے

لغت میں ہے: وَقَوْلُہٗ تَعَالیٰ حِکَایَةً عَنِ الْکُفَّارِ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ھُوَ شَاعِرٌ وَقَوْلُہٗ شَاعِرٌ مَجْنُوْنٌ… لَمْ یَقْصِدُوْا ھٰذَاالْمَقْصِدَ فِیْمَا رَمَوْہُ بِہٖ وَ ذٰلِکَ اَنَّہُ ظَاہِرٌ مِنَ الْکَلَامِ اَنَّہٗ لَیْسَ عَلیٰ اَسَالِیْبِ الشِّعْرِ وَلَا یَخْفٰی ذٰلِکَ عَلَی الْاِغْتَامِ مِنَ الْعَجَمِ فَضْلًا عَنْ بُلَغَاءِ الْعَرَبِ وَ اِنَّمَا رَمَوْہُ بِالْکَذِبِ فَاِنَّ الشِّعْرَ یُعَبَّرُ بِہٖ عَنِ الْکَذِبِ وَالشَّاعِرُ الْکَاذِبُ… قِیْلَ اَحْسَنُ الشِّعْرِ اَکْذَبُہٗ۔

            (مفردات راغب ص 262-263زیر لفظ شعر )

            کہ قرآن مجید میں جو یہ آتا ہے کہ کافر آنحضرت ﷺ کو شاعر اور مجنون کہتے ہیں۔ اس سے مراد کافروں کی کلام موزوں کہنا نہ تھی۔ بلکہ جس بات کا آنحضرت ﷺ پر اعتراض کیا جاتا تھا وہ اور تھی کیونکہ قرآن کا نثر ہونا توایسی بات ہے کہ کلام سے خود ہی ظاہر ہے (کہ یہ شعروں کی طرز پر نہیں) اور یہ امر ایک عام آدمی پر بھی مخفی نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ بلغاء عرب نثر اور نظم میں تمیز نہ کرسکتے ہوں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا ۔کیونکہ شعر سے مراد جھوٹ لی جاتی ہے اور شاعر کے معنے ہیں کاذب (جھوٹا) عربی ضرب المثل ہے کہ سب سے اچھا شعر وہ ہے جس میں سب سے زیادہ جھوٹ ہو۔

منطق کے امام علامہ شریف کہتے ہیں ۔

وَالشِّعْرُ…اِنَّ مَدَارَہٗ عَلَی الْاَکَاذِیْبِ وَمِنْ ثَمَّةٍ قِیْلَ اَحْسَنُ الشِّعْرِ اَکْذَبُہٗ

 (الحاشیہ الکبری علی شرح المطالع ص 774مصری)

کہ شعر کا مدار جھوٹ پر ہوتا ہے اور ضرب المثل میں ہے کہ سب سے اچھا وہ شعر ہے جس میں بہت جھوٹ ہو۔

آنحضرت ﷺ کے اشعار

حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جنگ حنین کے موقعہ پر فرمایا:

اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ                                  اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

(بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ و یوم حنین جلد 3ص 41)

            ”کہ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔“

حدیث شریف سے پتا لگتا ہے کہ آنحضورﷺ نے حضرت حسان بن ثابت ؓ کے شعر کہنے کو پسند فرمایا ۔آپؐ نے فرمایا:   اُھْجُ الْمُشْرِکِیْنَ فَاِنَّ  جِبْرئیل مَعَکَ.

یعنی مشرکین پر ( اپنی مجاہدانہ شاعری کے ذریعے ) حملہ کردے بے شک جبرائیل آپ کے ساتھ ہیں ۔

                 ( میزان الحکمہ بنقل از در منثورجلد 6، صفحہ336)

پھر حدیث شریف میں ہے کہ ایک جنگ کے موقعہ پر جب آنحضرت ﷺ کی انگلی پر زخم آگیا تو آپ نے اس انگلی کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا۔

                 ھَلْ اَنْتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَمِیْتٖ                    وَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ مَالَقِیْتٖ

(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب من ینکب او یطعن فی سبیل اللہ جلد 2 ص 86)

            کہ تو ایک انگلی ہی تو ہے  جس میں کہ خون بہہ رہا ہے اور یہ جو کچھ تجھے ہوا خدا کی راہ میں ہوا ہے۔

            اب یہ بھی کلام موزوں ہے۔بس اگر شعر سے مراد کلام موزوں لیا جائے تو یہ بالبداہت باطل ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ پر اس کی زد پڑتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ شعر سے مراد جھوٹ ہی ہے پس نفس شعر بلحاظ کلام موزوں کے بری چیز نہیں ۔ورنہ آنحضرت ﷺ شعر نہ کہتے اور نہ پڑھتے ۔

زبور کلیتًا اشعار پر مشتمل ہے ۔

حضرت داؤد ؑ کی طرف منسوب پرانے عہد نامے کی کتاب زبور کلیتًا اشعار پر مشتمل ہے ۔

حضرت مسیح موعود ؑ کا اپنے اشعار کے بارے میں شعر اور الہام

حضرت مسیح موعود  نے فرمایا ہے:

            کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق                        اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے

                                                                        (قادیان کے آریہ اور ہم۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ459)

            نیز حضرت اقدس ؑ کا الہام ہے:

                        در کلام تو چیزی ست کہ شعراء را درآں دخلی نیست

                                                (تذکرہ ص 595و ص658ایڈیشن سوم)

یعنی تیرے کلام میں وہ بات ہے کہ عام شعرا ء کو اس میں دخل نہیں ۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…