“50 الماریاں”کے الفاظ پر اعتراض کا جواب

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لکھاہے کہ انہوں نے ممانعت جہادمیں اتنی کتابیں تالیف کی ہیں جن سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔معترضین یہ کہتے ہیں یہ مبالغہ اور جھوٹ ہے۔نیز یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جتنی بھی کتابیں لکھیں ہیں ان میں نصف کے قریب آباء کی تعریف پرمشتمل ہیں ۔

“50 الماریاں”کے الفاظ پر اعتراض کا جواب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام  کی وہ تحریرجس پر اعتراض ہوتا ہے، ملاحظہ ہو:۔

’’۔۔۔میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارےمیں اس قدر کتابیں لکھیں ہیں اوراشتہارشائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اورکتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔۔۔‘‘

(تریاق القلوب ۔روحانی خزائن جلد 15صفحہ 155-156)

پہلی بات یہ مدنظر رہنی چاہیے کہ مندرجہ بالا فقرہ سے کوئی بھی عاقل انسان یہ نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ حضور ؑ نے پچاس کی تعدادکتب و رسائل کو معین کرنےکے لئے بتائی ہے ۔ عبارت کی طرز سے صاف ظاہر ہے کہ حضور پچاس کا لفظ کثرت کے معنوں میں فرما رہے ہیں اور کتب و رسائل کی زیادتی بیان کرنا مقصود ہے۔ہر زبان میں کثرت کو بیان کرنے کے لئے عمومًا اس طرز کا جملہ استعمال کیا جاتا ہے ۔

اور اگر پچاس کے لفظ کو ہی مراد لینا ہے کہ  حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ آپکے وہ رسائل اور کتب اگر اکھٹی کی جائیں تو پچاس الماریاں اس سے بھر سکتی ہیں تو یہ بھی بالکل درست بات ہے ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ  حضور ؑ کی چند مشہور کتب جیسے براہین احمدیہ،تحفہ گولڑویہ،ازالہ اوہام ،آئینہ کمالات اسلام ،حقیقت الوحی،اور چشمہ معرفت ہیں جن کی صرف پہلی اشاعت ہی ہزاروں میں تھی۔ نیز نزول المسیح کی تعداداشاعت اول  2900 تذکرۃ الشہادتین کی  800 تریاق القلوب کی  700 ایام الصلح کی  700اوربراہین احمدیہ حصہ پنجم کی  1600ہے۔ پس اگرصرف ان کتابوں کو ہی الماریوں میں رکھا جائے تو پچاس سے زیادہ الماریاں بھر جاتی ہیں ۔

یہ تو ہم نے  صرف حضورعلیہ السلام  کی چند کتابوں اور اشتہارات کی اشاعت کی تفصیل بتائی ہے اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ یہ پچاس الماریاں بنتی ہیں؟ یا کئی پچاس الماریاں بنتی ہیں؟؟

چنانچہ حضور کا یہ فرمانا کہ ان سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں نہ تو کسی قسم کا مبالغہ  ہے اور نہ ہی کسی قسم کا جھوٹ ہے ۔

اعتراض کے دوسرے حصے کا جواب

اعتراض کا دوسرا حصہ:۔

اعتراض کا دوسرا حصہ یعنی یہ کہ  حضور علیہ السلام  نے نصف سے زیادہ صفحات اپنے آباءواجداد کی تعریف میں سیاہ کیے ایک انتہائی درجے کی مبالغہ آمیزی اورجھوٹ ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام کتب سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی ظاہر ہوتی ہے خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور قرآن کی عظمت بیان کرنے سے ہو خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوسرے انبیاء کی طرح وفات یافتہ ثابت کرنے سے ہو خواہ آریوں کے غلط دلائل کو رد کرنے سے ہو خواہ تثلیث کے غلط عقیدہ کے بطلان سے ہووغیرہ چنانچہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت آپ کی آغاز کی کتاب براہین احمدیہ ہے جس میں آپ نے صداقت اسلام ثابت کی ہے جس کی تعریف تمام مسلمانوں نے کی بلکہ اس کی تعریف میں بڑے بڑے ریویو بھی لکھے ۔ محمد حسین بٹالوی نے براہین احمدیہ کا بڑا شاندار ریویو لکھا اور مخالفین کے جوابات تک تحریر کیے۔چنانچہ براہین احمدیہ کا ریویو لکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں:۔

’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں ۔ لَعَلَّ اللہ یُحْدِ ثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا۔اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔‘‘

( رسالہ اشاعۃ السنہ جلد7 ص 6)

اسی طرح مشہور صحافی جناب مولانا محمد شریف صاحب بنگلوری مسلمانان بنگلور کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں:۔

’’ کتاب براہین احمدیہ ثبوت قرآن و نبوت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا ثانی نہیں ۔ مصنف نے اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور پیغمبر آخر الزماں حق ہے۔ دین اسلام منجانب اللہ ۔۔۔عقلی دلیلوں کاا نبار ہے۔خصم کو نہ جائے گریز اور نہ طاقت انکار ہے۔ جو دلیل ہے بین ہے، جو برہان ہے روشن ہے۔ آئینہ ایمان ہے ۔ لب لباب قرآن ہے۔ ہادیٔ طریق مستقیم ، مشعل راہ قویم ، مخزن صداقت ، معدن ہدایت ، برق خر من اعداء ، عد و سوز ہر دلیل ہے۔ مسلمانوں کے لیے تقویت کتاب الجلیل ہے۔ام الکتاب کا ثبوت ہے۔ بے دین حیران ہے ، مبہوت ہے۔‘‘

(منشور محمدی 25 رجب المرجب 1300 ھ ص217)

پھر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی براہین احمدیہ کی تصنیف اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب قادیانیت میں لکھتے  ہیں :۔

’’یہ دور مذہبی مناظروں کا دور تھا اور اہل علم کے طبقہ میں سب سے بڑا ذوق مقابلہ مذاہب اور مناظرہ فرق کا پایا  جاتا ہے ۔۔۔عیسائی پادری مذہب مسیحیت کی تبلیغ ودعوت اور دین اسلام کی تردید میں سرگرم تھے۔حکومت وقت جس کا سرکاری مذہب مسیحت تھا ۔ان کی پشت پناہ اور سرپرست تھی ۔ وہ ہندوستان کو یسوع مسیح کا عطیہ اور انعام سمجھتی تھی ۔دوسری طرف آریہ سماج مبلغ جوش و خروش سے اسلام کی تردید کر رہے تھے۔۔۔

مرزا صاحب کی حوصلہ مند طبیعت اور دوربین نگاہ نے اس میدان کو اپنی سرگرمیوں کےلئے انتخاب کیا۔انہوں نے بہت بڑی ضخیم کتاب کی تصنیف کا بیڑا اٹھایا ہے ۔جس میں اسلام کی صداقت ،قرآن کے اعجاز اور رسول اللہﷺکی نبوت کوبدلائل عقلی ثابت کیا جائے گااور بیک وقت مسیحت ،سناتن دھرم،آریہ سماج اور برہم سماج کی تردید ہوگی۔انہوں نے اس کتاب کا نام براہین احمدیہ تجویز کیا۔۔۔معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے بہت سے علمی و دینی حلقوں میں اس کتاب کا پرجوش استقبال کیاگیا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب بہت  صحیح وقت پر شائع ہوئی تھی ۔مرزاصاحب اور ان کے دوستوں نے اس کی تشہیر و تبلیغ   بھی بہت جوش  وخروش سے کی تھی۔اس کتاب کی کامیابی اور اس کی تاثیر کا ایک سبب یہ تھا کہ اس میں دوسرے مذاہب کو چیلنج کیا گیا تھااور کتاب جواب دہی کی بجائے حملہ آورانہ   انداز میں لکھی گئی تھی ۔اس کتاب کے خاص معرفین اور پرجوش تائید کرنے والوں میں مولانامحمدحسین صاحب بٹالوی کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔انہوں نے اپنے رسالہ اشاعت السنۃ میں اس پر ایک طویل تبصرہ یا تقریظ لکھی جو رسالہ کے چھ نمبروں پر شائع ہوئی ۔اس میں کتاب کو بڑے شاندار الفاظ میں سراہا گیا ہےاور اس کو عصر حاضر کا ایک علمی کار نامہ اور تبلیغی شاہکار قرار دیا گیا ہے ‘‘

(قادیانیت طبع اول از مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صفحہ 45تا51)

ہندوستان کے ایک مانے ہوئے عالم اور اخبار وکیل امرتسر کے ایڈیٹرمولانا عبداللہ العمادی نے تحریر کیا کہ:۔

’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سےانقلاب کےتار الجھے ہوئے تھے اورجس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں ۔ وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس بر س تک زلزلہ اور طوفان رہا۔ جو شور قیامت ہوکر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اٹھ گیا۔۔۔مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے۔ایسے شخص جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اورجب آتے ہیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرکے دکھا جاتے ہیں۔ مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یا فتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا۔ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے۔تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کوعرصہ تک پست و پائمال بنائے رکھا، آئیندہ بھی جاری رہے۔۔۔ ۔‘‘

(اخبار وکیل 1908)

یہ تمام حوالہ جات غیر احمدی علماء کے ہیں۔ وہ بھی یہ تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اسلام کی خدمت و دفاع میں ایک غیر معمولی کردار ادا کیا۔ درحقیقت آپؑ نے اپنے پیچھے علم و عرفان کے بیش بہا روحانی خزائن چھوڑے ہیں جن سے ہر شخص، اگر وہ تعصب کی عینک اتار کر پڑھے ، اپنا دامن سیراب کر سکتا ہے۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…