حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مباھلہ اور مولوی ثناء اللہ امرتسری

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جب ٩١-١٨٩٠؁ء میں خدا سے الہام پا کر یہ اعلان فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور وعدہ کے مطابق آنے والا مثیل مسیح اور امام مہدی میں ہوں تو علماء زمانہ نے حضرت بانی جماعت احمدیہ پر کفر و ضلالت و ارتداد اور دائرہ دین حق سے خارج ہونے کے فتاویٰ لگائے اور عوام کو آپ اور آپ کی جماعت کے خلاف اکسانا شروع کیا- آپ نے قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے دلائل سے مخالف علماء پر حجت تمام کر دی مگر علماء کی مخالفت اور تکفیر بازی میں کمی کی بجائے زیادتی ہوتی چلی گئی تب آپ نے علماء و مشائخ کو خدا کے حکم کے مطابق ١٨٩٦ء میں اپنی کتاب انجام آتھم میں مسنون مباھلہ کی دعوت دی- وہ علماء جنہیں مباھلہ کی دعوت دی گئی ان میں گیارہواں نمبر مولوی ثناء اللہ امرتسری کا تھا مگر مولوی صاحب کو مباھلہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی-

کچھ عرصہ کے بعد ضلع امرتسر کے ایک گاؤں ”مُدْ” میں ایک دوست میاں محمد یعقوب احمدی ہو گئے گاؤں والوں کے اصرار پر اکتوبر ١٩٠٢؁ء میں احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان ایک مناظرہ ہوا اس مناظرہ میں احمدی مناظر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے غیر احمدی مناظر مولوی ثناء اللہ صاحب کو مباہلہ کی یاددہانی کرائی تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے ظاہر داری کے طور پر مباہلہ پر آمادگی ظاہر کر کے ایک تحریر لکھ دی- جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثہ ”مُد” کے حالات کا اپنی کتاب ”اعجاز احمدی” میں ذکر کر کے تحریر فرمایا کہ:-

”مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر مَیں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ مَیں اس طور کے فیصلہ کے لئے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی مَیں اور وہ یہ دعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی مر جائے”- (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد١٩ صفحہ١٢١)

اور فرمایا:-

”یہ تو انہوں نے اچھی تجویز نکالی- اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے”- (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد١٩ صفحہ١٢٢)

اور پھر حضور نے مولوی صاحب کو مخاطب کر کے لکھا کہ:-

”اگر مولوی ثناء اللہ صاحب ایسے چیلنج کے لئے مستعد ہوں تو صرف تحریری خط کافی نہ ہوگا- بلکہ ان کو چاہئیے کہ ایک چھپا ہوا اشتہار اس مضمون کا شائع کریں کہ اس شخص کو (اور اس جگہ میرا نام بتصریح لکھیں) میں کذّاب اور دجّال اور کافر سمجھتا ہوں اور جو کچھ یہ شخص مسیح موعود ہونے اور صاحب الہام و وحی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس دعوے کا مَیں جھوٹا ہونا یقین رکھتا ہوں- اور اے خدا مَیں تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ اگر یہ میرا عقیدہ صحیح نہیں ہے اور اگر یہ شخص فی الواقع مسیح موعود ہے اور فی الواقع عیسٰی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو مجھے اس شخص کی موت سے پہلے موت دے- اور اگر مَیں اس عقیدے میں صادق ہوں اور یہ شخص درحقیقت دجال- بے ایمان کافر مرتد ہے اور حضرت مسیح ؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں جو کسی نامعلوم وقت میں پھر آئیں گے تو اس شخص کو ہلاک کرتا فتنہ اور تفرقہ دُور ہو اور اسلام کو ایک دجال اور مغوی اور مُضِلّ سے ضرر نہ پہنچے- آمین ثم آمین”- (اعجازاحمدی روحانی خزائن جلد١٩ صفحہ١٢٣)

اس کے بعد حضرت بانی جماعت احمدیہ نے نہایت زور دار الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی شائع فرما دی کہ:-

”اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے” (اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ١٩ صفحہ١٤٨)

جناب مولوی ثناء اللہ صاحب نے ”اعجاز احمدی” کی اس تحدی اور پیشگوئی کو اپنی کتاب ”الہامات مرزا” میں نقل کر کے اس کے جواب میں یہ لکھا کہ:-

”چونکہ یہ خاکسار نہ واقع میں نہ آپ کی طرح نبی یا رسول یا ابن اللہ یا الہامی ہے- اس لئے ایسے مقابلے کی جرات نہیں کر سکتا”- (الہامات مرزا صفحہ١٠٢ بارسوم)

مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے اس عذر بے جا پر ان کے دو معتقدین (علی احمد صاحب کلرک میاں میر اور ثناء اللہ صاحب کلرک میاں میر) نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو خطوط لکھے اور مولوی صاحب کو مباہلہ کرنے پر مجبور کیا- چنانچہ مولوی صاحب نے ان خطوط کی بناء پر مجبور ہو کر ”اخبار اہلحدیث” ٢٢ جون ١٩٠٦ء صفحہ٤ پر لکھ دیا کہ:-

”آیت ثانیہ (فَقُلْ تعالوا ندع ابناء نا۔۔۔۔۔۔ الخ پارہ نمبر٣ع١٤) پر عمل کرنے کو ہم تیار ہیں- میں اب بھی ایسے مباہلہ کے لئے تیار ہوں جو آیت مرقومہ سے ثابت ہوتا ہے”-

اسی طرح لکھا کہ:-

”مرزائیو سچے ہو تو آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہیں ہمارے سامنے لاؤ جس نے ہمیں انجام آتھم میں مباہلہ کی دعوت دی ہوئی ہے- کیونکہ جب تک پیغمبر جی سے فیصلہ نہ ہو سب امّت کیلئے کافی نہیں ہو سکتا” (اخبار اہلحدیث امرتسر ٢٩ مارچ ١٩٠٧ء صفحہ١٠)

اس پر فوراً ایڈیٹر صاحب اخبار ”بدر” قادیان نے اخبار میں اعلان کیا کہ:-

”حضرت مرزا صاحب نے ان کے اس چیلنج کو منظور کر لیا ہے”- (اخبار بدر قادیان٤- اپریل ١٩٠٧ئ)

اس اعلان کے ہوتے ہی مولوی ثناء اللہ صاحب پر اوس پڑ گئی اور جھٹ پینترا بدل کر یہ لکھ دیا کہ:-

”میں نے آپ کو مباہلہ کے لئے نہیں بلایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مَیں نے تو قسم کھانے پر آمادگی کی ہے- مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہیں حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں مَیں نے حلف اٹھانا کہا ہے مباہلہ نہیں کہا- قسم اور ہے مباہلہ اور ہے- حلف اور قسم تو ہمیشہ ہر روز عدالتوں میں ہوتی ہے- مگر مباہلہ اس کو کوئی نہیں کہتا” (اہلحدیث ١٩ اپریل ١٩٠٧ء صفحہ٤)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ١٥ اپریل ١٩٠٧ء کو ایک اشتہار بعنوان ”مولوی ثناء اللہ صاحب کے ساتھ آخری فیصلہ” شائع کیا جس میں مولوی صاحب کو اپنی دعائے مباہلہ کے بالمقابل دعائے مباہلہ شائع کرنے کے لئے دعوت دی- تا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو اور آخر میں لکھا کہ:-

”بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے”-

اس دعائے مباہلہ کے جواب میں مولوی صاحب نے جو کچھ لکھا اس کو پڑھ کر ناظرین خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا مولوی صاحب نے دعائے مباہلہ کی ہے؟ یا کہ اس کو ردّ کر کے نہ صرف راہِ فرار اختیار کی بلکہ اپنی طرف سے ایک اور بالکل نیا طریق فیصلہ شائع کر دیا-

حضرت مرزا صاحب کے اشتہار ”آخری فیصلہ” کے جواب میں مولوی ثناء اللہ صاحب کا انکار- جس کو آج کے علماء بدنیتی سے چھپا رہے ہیں- مولوی صاحب نے لکھا-

٭ ”یہ کہ اس دعا کی منظوری مجھ سے نہیں لی اور بغیر میری منظوری کے اس کو شائع کر دیا”-
٭ ”یہ کہ اس مضمون کو بطور الہام شائع نہیں کیا”-
٭ ”یہ کہ میرا مقابلہ تو آپ سے ہے اگر میں مَر گیا تو میرے مرنے سے اور لوگوں پر کیا حجّت ہو سکتی ہے”؟
٭ ”آپ نے بڑی چالاکی یہ کی کہ یہ دیکھا کہ ان دنوں طاعون کی شدت ہے- خصوصاً صوبہ پنجاب میں سب صوبوں سے زیادہ ہے اور بالخصوص پنجاب کے دارالسلطنت لاہور میں جو امرتسر سے بہت قریب ہے یہ کیفیت ہے کہ مردوں کو اٹھانا مشکل ہو رہا ہے- ایسی صورت میں ہر ایک شخص طاعون سے خائف ہے اور کوئی آج اگر ہے تو کل کا اعتبار نہیں اور دیکھنے میں بھی ایسا ہی آیا ہے کہ وہ ہے تو یہ نہیں- یہ ہے تو وہ نہیں”-
٭ ”تمہاری یہ دعا کسی صورت میں فیصلہ کن نہیں ہو سکتی کیونکہ مسلمان تو طاعونی موت کو بموجب حدیث شریف کے ایک قسم کی شہادت جانتے ہیں- تو پھر وہ کیوں تمہاری دعا پر بھروسہ کر کے طاعون زدہ کو کاذب جانیں گے؟”
٭ ”آپ نے پہلے۔۔۔ لکھا تھا کہ خدا کے رسول چونکہ رحیم کریم ہوتے ہیں اور ان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شخص ہلاکت اور مصیبت میں نہ پڑے مگر اب کیوں آپ میری ہلاکت کی دعا کرتے ہیں”-

اور پھر آخر پر لکھا کہ:-

”یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اس کو منظور کر سکتا ہے-” (اخبار اہلحدیث ٢٦ اپریل ١٩٠٧ء صفحہ٥’٦)

ناظرین غور فرمائیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے بالمقابل دعائے مباہلہ کرنے اور جھوٹے کے سچے کی زندگی میں ہلاک ہونے کے طریق کو کس طرح کلیتًہ مسترد کر دیا اور دعائے مباہلہ کرنے سے فرار اختیار کیا ہے اور اس طرح یہ مباہلہ تو نہ ہو سکا لیکن اس کی بجائے مولوی ثناء اللہ صاحب نے ایک نیا طریق اور مؤقف اختیار کیا-

مولوی ثناء اللہ صاحب کی طرف سے نیا طریق

چنانچہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے اس مضمون کے مقابل میں کہ ”جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو” کو ردّ کر کے اسی اخبار ”اہلحدیث” ٢٦ اپریل ١٩٠٧ء کے حاشیہ میں صفحہ ٤ پر بذریعہ ”نائب ایڈیٹر” یہ نیا طریق فیصلہ شائع کیا اور اپنی طرف سے اس کو آیاتِ قرآنی کے مطابق ٹھہرایا لکھتے ہیں-

”قرآن تو کہتا ہے کہ بدکاروں کو خدا کی طرف سے مہلت ملتی ہے سنو من کان فی الضلالۃ۔۔۔۔۔۔ الخ (پارہ نمبر١٦ رکوع ٨)اور انما نملی لھم۔۔۔۔۔۔ الخ (پارہ نمبر٤ رکوع٩) وغیرہ آیات تمہارے اس دجل کی تکذیب کرتی ہیں- اور سنو بل متعنا ھؤلائ۔۔۔۔۔۔ الخ (پارہ نمبر١٧ رکوع٤) جن کے صاف یہی معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ جھوٹے دغا باز مفسد اور نافرمان لوگوں کو لمبی عمریں دیا کرتا ہے تا کہ وہ اس مہلت میں اور بھی بُرے کام کر لیں-

مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے ”نائب ایڈیٹر” کی اس عبارت پر صاد کیا ہے کہ:-

”میں اس کو صحیح جانتا ہوں” (اہلحدیث ٣١ جولائی ١٩٠٨ء صفحہ٣)

بلکہ مولوی صاحب نے یہ بھی لکھا کہ:

”آنحضرت علیہ السلام باوجود سچا نبی ہونے کے مسیلمہ کذاب سے پہلے انتقال ہوئے- مسیلمہ باوجود کاذب ہونے کے صادق سے پیچھے مرا- ۔۔۔۔۔۔ مگر آخر کار چونکہ بے نیلِ مرام مرا’ اس لئے دعا کی صحت میں شک نہیں”- (مرقع قادیانی اگست ١٩٠٧ء صفحہ٩)

غرضیکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے بالمقابل مؤکد بعذاب قسم کھا کر مباہلہ تو نہ کیا لیکن ایک نیا طریق فیصلہ پیش کیا کہ :-

١- چھوٹے’ بدکار’ مفسد کو مسیلمہ کذاب کی طرف مہلت دی جاتی ہے-
٢- جھوٹا سچے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے تا بے نیل مرام اس دنیا سے رخصت ہو-

پس مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے نہ صرف اپنے پیش کردہ طریق فیصلہ کے مطابق مہلت پائی بلکہ مہلت پانے کے بعد جس طرح بے نیل مرام حسرتوں کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے وہ بھی حضرت بانی سلسلہ کی سچائی کا ایک بین ثبوت ہے-

رسالہ ”الاعتصام” ١٥ جون ١٩٦٢ء صفحہ١٠ پر لکھا ہے-

”اگست ١٩٤٧ء میں امرتسر نہایت قیامتِ صغریٰ کا نمونہ پیش کر رہا تھا- فسادات کے ہلاکت خیز طوفان نے مولانا کی اقامت گاہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر چند کہ وہ اپنے دیگر عزیزوں کے ہمراہ سلامتی سے نکل آنے میں کامیاب ہو گئے- لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا جوان اکلوتا بیٹا عطاء اللہ جس طرح بُری طرح ذبح کیا گیا اس نے ان کے قلب و جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا”-

پھر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے سوانح نگار مولوی عبدالمجید صاحب سوہدروی نے لکھا:-

”آپ کا مکان کو چھوڑنا ہی تھا کہ بدمعاش لُٹیرے جو اسی انتظار میں گھات لگائے بیٹھے تھے’ ٹوٹ پڑے اور تمام سامان نقدی’ زیورات وغیرہ لوٹ کر لے گئے اور اس لوٹ کھسوٹ کے بعد مکان کو بھی نذرِ آتش کر دیا- لیٹروں نے اسی پر بس نہ کی بلکہ آپ کا وہ عزیز ترین کتب خانہ جس میں ہزار ہا روپے کی نایاب و قیمتی کتابیں تھیں اور جن کو آپ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے جمع کیا اور خریدا تھا’ جلا کر خاک کر دیں- کتابوں کے جلنے کا صدمہ مولانا کو اکلوتے فرزند کی شہادت سے کم نہ تھا- یہ کتابیں حضرت کا سرمایہ زندگی تھیں اور ان میں بعض تو اس قدر نایاب تھیں کہ ان کا ملنا ہی مشکل بلکہ ناممکن ہو چکا تھا-

یہ صدمہ جانکاہ آپ کو آخری دم تک رہا اور حقیقت میں آپ کی ناگہانی موت کا سبب یہ دو ہی صدمات تھے- ایک فرزند کی اچانک شہادت اور دوسرے بیش قیمت کتب کی سوختگی’ چنانچہ یہ دونوں صدمے تھوڑے عرصہ میں آپ کی جان لیکر رہے-” (سیرت ثنائی صفحہ٣٨٩۔٣٩٠ مقام اشاعت دفتر اہلحدیث سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ)

یہ ہے اس تاریخی مباہلہ کی حقیقت اور اس کا انجام کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اپنی ہی مقرر کردہ معیار کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد چالیس سال تک زندہ رہ کر آپ کے پیغام اور سلسلہ کی کامیابیوں اور ترقیات کو دیکھتے ہوئے اور حسرتوں کو سینہ میں لئے ١٩٤٨ء میں سرگودھا میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس دردناک انجام سے محفوظ رکھے اور حق کو پہچاننے اور اسے قبول کرنے کی توفیق بخشے- آمین

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…