کیا’کالو‘یا  ’کالا‘ بھی خدا کا نام ہے؟

اعتراض: جماعت احمدیہ کے نزدیک خدا کا ایک نام ’کالو‘ یا  ’کالا‘بھی ہے۔ نعوذ باللہ

اصل روایت کچھ یوں ہے کہ حضرت مفتی صاحب ؓ نےلاہور میں ملازمت کے زمانے میں  ایک خواب دیکھی کہ  ’کالو‘ نام کا ایک غیر مرد اُن کے گھر کے زنان خانہ میں بلا تکلف گھس آیا ہےاور ان کی اہلیہ نے اس سے کچھ پردہ نہیں کیا۔ حضرت مفتی صاحب ؓ کے دل میں اس خواب سے انقباض پید ا ہوا ۔تاہم چونکہ یہ ایک خواب تھالہذا انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بذریعہ خط اس خواب کی تعبیر دریافت کی جس پر جواب آیا۔

’’اگر آپ کے گھر میں حمل ہے تب اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے گھر لڑکا پیدا ہوگا۔ کالو۔کالادراصل عربی الفاظ ہیں۔ اس کے معنی ہیں نگاہ رکھنے والا۔ یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے۔ کالو کے گھر میں آنے کی یہ تعبیر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل مرحلہ حمل میں آپ کی بیوی کا نگہبان ہوگا اور فرزند نرینہ عطا کرے گا‘‘1

حضرت مفتی صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ حسن اتفاق سے ان دنوں ہمارے گھر میں حمل تھا جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کچھ خبر نہ تھی۔چنانچہ اس تعبیر کے عین مطابق ایام حمل پورے ہونے پرحضرت مفتی صاحب کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کی پیدائش کو خدا نے خود اپنے خاص فضل سے ہر قسم کی پیچیدگی سے محفوظ رکھا۔

علم تعبیر الرؤیا ء ایک ایسا آسمانی علم ہے جو خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو محض اپنے خاص فضل سے عطا کرتا ہےاور کسی غیر متقی کو اس علم سے حصہ نہیں دیا جاتا۔ چنانچہ سور ۃ یوسف کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ علم خدا تعالیٰ نے خاص طور پر بطور احسان اپنے پیارے نبی حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا کیا تھا۔

اب غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پراس علم لدنیّ کے دروازے کس شان سے کھولے تھےکہ ’کالو‘ نامی شخص کے گھر میں داخل ہونے کی  رویاء سے کوئی کیا نتیجہ نکال سکتا ہے لیکن آپ علیہ السلام اس کی تعبیر یہ فرماتے ہیں  کہ اگر گھر میں حمل ہے تو خدا بیٹا دے گا اوراُس کی پیدائش کے موقع پر نگاہ رکھنے والے خدا کے فضل سے کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہوگی۔ اللہ کی قدرت کہ اس موقع پر گھر میں حمل بھی تھا اور خدا تعالیٰ نے اس تعبیر کو سو فیصد پورا کرتے ہوئے اولاد نرینہ بھی عطا کی اور ہر پیچیدگی سے محفوظ رکھا۔  لیکن معترض نے اس تمام روایت کی خوبصورتی کو یکسر نظر انداز  کر دیا اور بس ایک سطر کے مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ اعتراض بنا دیا جس کا تمام واقعہ میں کچھ ذکر نہیں۔

’کالو‘ اور ’کالا‘ ہرگز خدا کے نام نہیں ہیں ۔اس بات کو سمجھنے کے لئے روایت کے اصل الفاظ پر  غور کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو الفاظ مفتی محمد صادق صاحبؓ نے روایت کئے ہیں وہ یوں ہیں:

’’ کالو۔کالادراصل عربی الفاظ ہیں۔ اس کے معنی ہیں نگاہ رکھنے والا۔ یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے۔‘‘

یعنی کالو یا کالا عربی الفاظ ہیں جن کے معنی نگاہ رکھنے والے کے ہیں۔ اس کے بعدگویا حضور فرماتے ہیں کہ ’’نگاہ رکھنے والا‘‘خدا تعالیٰ کا وجود ہے اور یہ اُسی کا نام ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ خدا کے اسمائے حسنیٰ میں سے کئی ناموں کا مفہوم یہی ہے کہ نگاہ رکھنے والا۔ خدا تعالیٰ کے اسماءمیں سے’الْبَصِير‘،’الرَّقِيب‘ اور ’الْخَبِير‘وغیرہ  اسماءاسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں ۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’کالو‘ یا ’کالا‘ کے الفاظ کو خدا کے اسماء قرار دیا ہوتا تو اصل جملہ یوں ہونا چاہئے تھا:’یہ خدا تعالیٰ کے نام ہیں‘۔ چونکہ کالو اور کالادو الفاظ ہیں اور جمع ہیں۔ اور ان کے لئے پچھلا جملہ جمع میں ہی تھا۔ جیسے کہ فرمایا:’یہ عربی الفاظ ہیں‘۔ لہذا یہ بالکل واضح بات ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کےاصل  الفاظ یوں ہیں’’ نگاہ رکھنے والا۔ یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے۔‘‘ اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ خدا بصیر اور رقیب ہےیعنی نگاہ رکھنے والا ،نگرانی  اور نگہبانی کرنے والا ۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ’سامِع‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’سننے والا‘‘ ۔ یہ خدا کی صفت ہے۔ تو یہ مراد نہیں کہ لفظ ’سامِع‘ کو خدا کی صفت قرار دیا گیا  بلکہ سامع کو تو عربی کا ایک لفظ قرار دیا گیا ہے اور اس کے معنی ومفہوم کو خدا تعالیٰ کی صفات میں سے بتایا گیا۔ لہذا ’سننے والا ‘خداکی صفت ہے جس پر اس کا پیار نام ’السمیع‘ دلالت کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ’نگاہ رکھنے والا‘خدا کی صفت ہے جس پر اس کے اسمائے مبارکہ الرقیب یا البصیر وغیرہ دلالت کرتے ہیں۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ’کالو ‘ اور ’کالا‘ کیسے عربی کے الفاظ ہیں ؟  تو اس کے متعلق بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خواب میں دکھائے جانے والے ایک شخص کا نام تھا۔ اور خواب میں کیا لفظ کس بات پر دلالت کرتاہے اور کس مفہوم کو بیان کرتا ہےیہ بات تو صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو خدا کی طرف سے تعبیر الرؤیا کے علم میں سے حصہ عطا کیا گیا ہو۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رؤیا میں دکھائے جانے والے ایک اشارہ کو عربی زبان کا ایک لفظ سمجھتے ہوئے اس کی تعبیر فرمائی جس کو عرش کے خدا نے سچ کر دکھایا تو اس کے بعد اس روایت کے الفاظ کو تروڑ مروڑ کراعتراضات نکالنا کیسی ناانصافی ہے۔ کیا کوئی مولوی صاحب جواب دے سکتے ہیں کہ اگر یہ تعبیر جھوٹی تھی یا تعبیر کرنے والا خدا کے نزدیک جھوٹا تھا تو کیوں خدا تعالیٰ نے اس کی بتائی ہوئی تعبیر کو منّ وعن پورا کر دیا ؟

خواب میں دیکھے ہوئے کسی امر کی غیر معمولی تشریح کر دینا علماء کے نزدیک قطعاً اچنبھے کی بات نہیں لہذااس سارے معاملہ میں  غور طلب  بات یہ نہیں کہ ہم کالو یا کالا کے الفاظ کو عربی زبان میں تلاش کریں ۔غور طلب امر تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیان فرمودہ تعبیر کو اعجازی رنگ میں پورا کر دیا۔ تاہم اگر یہ ضد ہو کہ ضرور عربی دکھائی جائےتو اس صورت میں عرض ہےکہ ایک زبان کے الفاظ جب کسی دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہیں تو ان الفاظ کا بعینہ اصل صورت میں قائم رہنا ناممکن ہوتا ہےاور اس اصول سے لسانیات کے ماہرین خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر عربی زبان کے الفاظ پر غور کیا جائے توعربی میں ایک مادہ ایسا ہے کہ جس کا مفہوم نگرانی اور حفاظت کرنے کا ہے اور اس کے ساتھ ’کالو ‘ اور ’کالا‘کے الفاظ کی صوتی مشابہت بھی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔چنانچہ عربی میں  كَلَأَ يَكلَأ،كَلْئًا وكِلاءً وكِلاءَةً بطور فعل استعمال ہو تواس کا مطلب عربی لغات یہ بتاتی ہیں  کہ حَرَسَ وحَفِظَ یعنی اس نے نگرانی کی اور حفاظت کی۔ پھراگر عربی میں یہ کہا جائے كلأَ اللهُ العبادَ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حفِظهم ورعاهم وحَرَسهم یعنی اللہ نے بندوں کی حفاظت کی اور ان کا خیال رکھا اور نگہبانی کی۔ اور قرآن مجید میں بھی ’كَلَأَ‘ کا فعل خدا تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ سورۃ انبیاء میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :

قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ2

اس قرآنی آیت کا ترجمہ معترضین حضرات کے امام احمد رضا خان بریلوی  یوں کرتے ہیں:’’تم فرماؤ شبانہ روز تمہاری کون نگہبانی کرتا ہے رحمٰن سے‘‘

پھر اگر لغات کا مزید مطالعہ کریں تو اسی مادہ سے باب مفاعلہ ’كالأَ‘بنے گا۔اور لسان العرب  كالأَ کا مطلب بتاتی ہے ’رَاقَبَ‘ یعنی  اس نے نگاہ رکھی اور نگرانی کی۔ باب مفاعلہ میں كالأَه  کو کَالَاہ پڑھنا بالکل جائز ہے۔ یعنی اس نے اس پر نگاہ رکھی اور نگرانی کی۔ پھرلغات کے مطابق كَلُوءٌ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس پر نیند غالب نہیں آتی  اور وہ مسلسل نگاہ رکھتا ہے۔ عین ممکن ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے كالأَیا كَلُوءٌ جیسے الفاظ ہی لکھے ہوں جن کو مفتی صاحب نے اردو رسم الخط کی وجہ سے کالو یا کالا پڑھ لیا۔

مختصراً یہ کہ  جب ’كلأَ‘ کا فعل عربی زبان میں نگرانی ،نگہبانی اور حفاظت کرنے کے معنوں میں مستعمل ہے تو کیا عجب عربی زبان کے اسی مادہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اردو میں کالا یا کالو کے الفاظ سے کیا اور اس عربی مادہ کے معنی کو مدّنظر رکھتے ہوئے مفتی صاحبؓ کے خواب کی تعبیر فرمائی جس کو خدا نے سچ کر دکھایا۔

لہذا ثابت ہوا کہ ’کالا‘ یا ’کالو‘ ہرگز خدا تعالیٰ کے اسماء نہیں ہیں بلکہ خدا کی ایک صفت ’نگاہ رکھنے والا‘ ہے ۔ اس صفت کی طرف خدا تعالیٰ کے کئی مبارک اسماء اشارہ کرتے ہیں جس طرح البصیر یا الرقیب جیسے  اسماء کا یہی مفہوم ہے۔ 

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس آخر میں قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

’’اس (اللہ)کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی۔ وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے۔ اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے۔۔۔اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد ّ حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمامؔ خوبیوں کا۔ اور جامع ہے تمام طاقتوں کا۔ اور مبدء ہے تمام فیضوں کا۔ اور مرجع ہے ہر ایک شَے کا۔ اور مالک ہے ہر ایک ُ ملک کا۔ اور ّ متصف ہے ہر ایک کمال سے۔ اور ُ منزّہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے۔ اور مخصوص ہے اِس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اُسی کی عبادت کریں۔‘‘3

حوالہ جات: 

  1. ذکر حبیب ، مفتی محمد صادق ؓ، صفحہ 181
  2. الانبیاء: 43
  3. الوصیت ، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 310

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…