’یَلاش‘ ۔خدائے واحد و لا شریک کا ایک نام اس خوبصورت نام پر اعتراضات کا جواب

خدا تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں اپنے رسولوں اور پیغمبروں کی سچائی کی ایک نشانی یہ بھی  بتائی ہے کہ ہمیشہ جن و انس کے شیاطین میں سے ان کے دشمن مقرر کر دئے جاتے ہیں جو دھوکہ کے ساتھ جھوٹی باتیں آپس میں ایک دوسرے کو بتاتے ہیں ۔انہی شیاطین کی ایک  پکی علامت یہ بھی بیان کی گئی کہ وہ خدا کےبرگزیدوں ،ان کی لائی ہوئی تعلیم اور ان کے پیغام کے ساتھ ہنسی ، ٹھٹھا اور استہزاء کرتے ہیں ۔ ایک طرف یہ شیاطین امام وقت سے دشمنی اوراستہزاءکرکے  علمی ،روحانی اور عقلی لحاظ سے زندگی کے چشمہ سے دور جا گرتے ہیں اور دوسری طرف امام الزمان پر خدا اپنی جناب سے دینی و دنیوی علوم کے دروازے کھول دیتا ہے اور ہدایت کا آفتاب اس کے دل میں روشن کردیتا ہے۔ ان دونوں گروہوں کے آپس کے روحانی اورعلمی تفاوت کو حافظِ شیرازکا یہ مصرع خوب واضح کرتا ہے ۔

؎   چراغ ِمردہ کجا، شمعِ آفتاب کجا

گزشتہ دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ایسے ہی مخالفین کی چند تحریرات اور ویڈیوز وغیرہ نظر سے گزریں  جن میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام  کی ایک تحریر کے بارہ میں خوب ٹھٹھا کیا اور اپنی دانست میں انہوں نے ایک بہت بڑا اعتراض پیدا کیا لیکن درحقیقت ان کا تمام استہزاء ان کےاپنے علمی افلاس کا اعلان تھا۔اعتراض کچھ یوں کیا جاتا ہے کہ :

’مرزائیوں کا خدا بھی مختلف ہے یہ لوگ ایک اللہ کو نہیں مانتے  بلکہ انہوں نے ایک اور خدا بنا رکھا ہے جس کا نام ’یلاّش ‘ہے۔خدا تعالیٰ کا اصل نام تو اللہ ہےاور باقی جو بھی خدا کے ننانوےصفاتی  نام مشہور ہیں ا ن تمام ناموں کو دیکھ لیں  کہیں بھی آپ کو خدا کا نام یلّاش نہیں ملے گا۔‘

ان حضرات کے اس اعتراض کی مزید تفصیل جاننے کی کوشش کی تو سوشل میڈیا پر ان کی طرف سے جاری ایسی بدکلامی دیکھنے کو ملی  کہ یقین ہو گیا کہ علمی افلاس کے ساتھ ساتھ اخلاق و روحانیت بھی زندہ درگور کئے جا چکے ہیں۔اِنّا للّٰہ وَ اِنّا اِلَیہ راجعون۔ خیر ان حضرات کے ذکر کو چھوڑ کر ہم اس اعتراض کی حقیقت پر غور کر تے ہیں۔سب سے قبل ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بابرکت تحریر کو دیکھتے ہیں کہ جس پر یہ اعتراض اٹھایا گیا۔حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ یَلَاشْ خدا کا ہی نام ہےیہ ایک نیا الہامی لفظ ہے کہ اب تک مَیں نے اس کو اس صورت پر قرآن اور حدیث میں نہیں پایا اور نہ کسی لغت کی کتاب میں دیکھا۔ اس کے معنے میرے پر یہ کھولے گئے  کہ یَالَاشَرِ یْکَ۔ اس نام کے الہام سے یہ غرض ہے کہ کوئی انسان کسی ایسی قابل ِ تعریف صفت یا اسم یا کسی فعل سے مخصوص نہیں جو وہ صفت یا اسم یا فعل کسی دُوسرے میں نہیں پایا جاتا۔ یہی سرّ ہے جس کی وجہ سے ہر ایک نبی کی صفات اور معجزات اظلال کے رنگ میں اس کی اُمّت کے خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں جو اس کے جوہر سے مناسبت تامہ رکھتے ہیں تاکسی خصوصیت کے دھوکہ میں جہلا اُمّت کے کسی نبی کو لاشریک نہ ٹھہرائیں۔ یہ سخت کفر ہے جو کسی نبی کو یلاش کا نام دیا جائے۔ کسی نبی کا کوئی معجزہ یا اور کوئی خارق عادت امر ایسا نہیں ہے جس میں ہزار ہا اور لوگ شریک نہ ہوں۔ خدا کو سب سے زیادہ اپنی توحید پیاری ہے۔ توحید کے لئے تو یہ سلسلہ انبیاء علیہم السلام کا خدائے عزّو جلّ نے زمین پر قائم کیا۔ پس اگر خدا کا یہ منشاء تھا کہ بعض صفات ربوبیت سے بعض انسانوں کو مخصوص کیا جائے تو پھر کیوں اس نے کلمہ طیبہ لَآ الہَ الا اللّٰہ کی تعلیم کی جس کے لئے عرب کے میدانوں میں ہزارہا مخلوق پرستوں کے خون بہائے گئے۔ پس اے دوستو! اگر تم چاہتے ہو کہ ایمان کو شیطان کے ہاتھ سے بچا کر آخری سفر کرو تو کسی انسان کو فوق العادت خصوصیت سے مخصوص مت کرو کہ یہی وہ گندہ چشمہ ہے جس سے شرک کی نجاستیں جوش مارکر نکلتی ہیں اورانسانوں کو ہلاک کرتی ہیں۔ پس تم اس سے اپنے آپ کو اور اپنی ذریت کو بچاؤ کہ تمہاری نجات اسی میں ہے۔‘‘1

آپ اس تحریر کو پڑھئیے اور اوّل سے آخر تک کئی بار پڑھ جائیے اور پھر للہ ،انصافاً بتلائیے کہ کیا اس تحریر کے کسی ایک بھی لفظ سے یہ گمان گزرتا ہے کہ اس میں خدائے واحد و لا شریک کے سوا کسی اور معبود پر ایمان لانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اگر یہ مخالفین بھی تعصب کی عینک اتار  کر اور جوش جہا لت کو فرو کر کے اس تحریر کو پڑھتے اور اس پر غور کرتےتو معلوم ہو تاکہ یہ تحریر تو توحید کےاس نور میں غوطہ زن ہو کر لکھی گئی ہےجو تمام آفاقی و انفسی معبودوں کی نفی کے بعد پیدا ہوتا ہے۔اس تحریر کے مطالعہ کے بعد علیٰ وجہ البصیرت یہ گواہی دی  جا سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچی توحید کا نور نہ صرف اس تحریر کے عالی منصب مصنف کے اپنے رگ و ریشہ میں سرایت کر چکا ہے بلکہ یہ تڑپ بھی ہے کہ اس کے عزیزوں کا تمام گروہ بھی اسی مبارک چشمہ سے سیراب ہو جائے۔ مگر  بد اندیش کی اُس آنکھ کے کرشمے دیکھئے جس کا واحد ہنر عیب جوئی کرنا ہےکہ وہ تحریر جو خدا تعالیٰ کی سچی توحید کا مضمون بیان کرتی تھی اس پر شرک جیسا ناپاک الزام لگا دیا۔

؎چشم بد اندیش کہ بر کندہ باد
عیب نماید ہنرش در نظر

یَلَاشْ کے اس مبارک الہامی نام سے جو کہ یَالَاشَرِ یْکَ کا مخفف ہے سے اس قدر نفرت کی وجہ بہت غور کرنے کے باوجود بھی سمجھ میں نہ آسکی۔ اگر یہ وہم ہو کہ یہ نام  اللہ  تعالیٰ کی کامل ذات( جو کہ تمام صفات کاملہ سے متصف اور تمام رزائل سے منزہ ہے)کے شایان شان نہیں ہے تو یہ بات  ہرگزدرست نہیں کیونکہ یہ نام تو اپنی تعریف و تشریح سے ایسے معبودِ برحق کا تصور پیش کرتا ہے جس کی صفات و کمالات  میں حقیقی طور پر کوئی  بھی ذی روح شریک نہیں ہو سکتا اور یہ نام  حقیقت میں قرآن کریم کے اس حکم کے عین مطابق ہے کہ

وَلِلّٰهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُواْ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَآئِهِ 2

اور اللہ ہی کے سب خوبصورت نام ہیں۔ پس اُسے ان (ناموں) سے پکارا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارہ میں کج روی سے کام لیتے ہیں۔

قرآن مجید کی اس آیت کریمہ کی رو سے ہر اچھا نام اور صفت خدا ہی کے لئے ہےاور ہم سب کو حکم ہے کہ ہم ان اچھےاسماء کے ساتھ خدا کو یاد کریں۔لہذا ہم تو قرآن کے حکم اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ تشریح کے مطابق اللہ تعالیٰ کے باقی اسمائے مبارکہ کے ساتھ ساتھ اس مبارک نام’یَلاش‘ کی بھی توقیر کرتے ہیں جس کا مطلب ہے ’یا لا شریک‘جبکہ  معترضین کا طرز عمل ضرور اس آیت کے دوسرے حصہ کے مطابق ہے جو اس نام کے متعلق ہر طرح کی ہرزہ سرائی میں دن رات مصروف ہیں۔

ذات و صفات باری کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات:

یہاں  خیال آیا کہ چونکہ ان معترضین نے جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ ایک خدا کو  نہیں مانتے بلکہ انہوں نے کوئی اور خدا بنا رکھے ہیں تو کیوں نہ موقع کی مناسبت سے حضرت امام الزمان مرزا غلام احمد علیہ السلام قادیانی کی چندایسی تحریرات ان معترضین کی نذر کی جائیں  جن میں خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کامضمون بیان کیا گیا ہےتاکہ شاید کوئی انصاف پسند ایسی کسی  تحریر کو دیکھ کر یہ اندازہ کر سکے کہ خدا تعالیٰ کی ذات و صفات  کی کیسی گہری معرفت آپ علیہ السلام کو عطا ہوئی تھی۔

لیکن انتخاب کرنے کے لئے جب ان تحریرات کو دیکھنا شروع کیا تو بے اختیار زبان سے سبحان اللہ ، الحمد للہ کے الفاظ جاری ہوئے اور اس خدا کا بے انتہاء شکر دل میں پیدا ہوا جس نے ہمیں اپنے پیارے مسیح ومہدی کے غلاموں میں شامل ہونے کی توفیق دی اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی عالی شان تحریرات نظر سے گزریں کہ انتخاب مشکل ہوگیا۔

براہین احمدیہ پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے بڑی شان سے خدا تعالیٰ کی توحید اور صفات کے قرآنی مضمون کو بیان کیا اور پھر یہی نہیں بلکہ قرآن مجید میں موجود  توحید کی تعلیم کا موازنہ بائبل اور ویدکی عبارتوں سے کرتے ہوئے قرآنی تعلیم کی فوقیت کو بھی ثابت فرمایا۔ ’سرمہ چشم آریہ ‘کے پرچے نظر سے گزرےتو حضرت اقدس علیہ السلام ایک تنگ نظر آریہ لیڈر کو یہ سمجھاتے ہوئے نظر آئےکہ کسی انسان کو  خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کی حد بست  کرنے کی مجال نہیں اور خدا تعالیٰ کے دقیق در دقیق کاموں کے متعلق انسانی علم کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک سمندر کے بالمقابل ایک قطرہ کا کروڑم حصہ۔ پھر لیکچر لاہور کا وہ حصہ بھی  نظر سے گزرا جس میں حضرت اقدس علیہ السلام قرآن مجید کی ان پیاری تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حسن و احسان کا مختلف پیرایوں میں ذکر کر کے خدا کے وجود کو انسان کے لئے پیارا اور محبوب بنانے کے لئے کوشش کر رہی ہیں اور وہ متعدد تحریرات بھی جن میں صفات خداوندی میں تعطل کا عقیدہ رکھنے والوں کو یہ سمجھایا گیا تھا کہ خدا کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں اور وہ کبھی معطّل نہیں ہوں گی۔ خدا جس طرح پہلے کلام کرتا تھا آج بھی کرتا ہے بس تلاش کرنے والے مومن کی جستجو سچی ہونی چاہئے۔پھر بعض تحریرات ایسی بھی تھیں جن میں آپ ؑبڑی تڑپ اور درد کے ساتھ  یہ اعلان کرتے ہوئے نظر آئے کہ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہےہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں۔اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ یہ تمہیں سیراب کرے گا۔

پادری عماد الدین نے بسم اللہ میں مذکور صفات الرحمٰن اورالرحیم کی ترتیب پر اعتراض کیا اور اس کو بلاغت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تو آپ علیہ السلام نےسورۃ فاتحہ میں مذکور خدا تعالیٰ کی چار امہات الصفات کی ترتیب اور پھر ان چار صفات باری کے زیر اثر دنیا میں جاری ہونے والے خدا کے چار فیضان یعنی فیضان اعم ، فیضان عام ، فیضان خاص اور فیضان اخص کا مضمون بیان کر کے بلاغت کے دریا بہا دئے۔اور اگرایک معترض آریہ نے خدا تعالیٰ کے عرش کے مادی ہونے اور خدا کے ’کرسی‘ پر متمکن ہونے پرٹھٹھا کیا تو  خدا کی تشبیہی و تنزیہی صفات  پر روشنی ڈالتے ہوئے ان میں فرق بیان کیا اور پھر عرش خداوندی کے متعلق قرآنی آیات کی ایسی تفسیر فرمائی جو اعجاز کا رنگ رکھتی ہے۔اے کاش ان معترضین میں سے کوئی براہین احمدیہ اور چشمہ معرفت کی یہ تحریرات اٹھا کر تو دیکھے۔اگر ایک شخص اس غلطی کا شکار ہوگیا کہ نجات کے لئے محض خدا تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا ہی کافی ہے اور رسول خداحضرت محمد ﷺکی غلامی کا دم بھرنے کی ضرورت نہیں تو حقیقۃ الوحی کے نام سے ایک عظیم الشان مضمون تصنیف کر کے اسے سمجھایا کہ انسان فلسفہ کی کشتی میں بیٹھ کر کبھی بھی خدا کی ذات کے متعلق شکوک کے طوفان سے نجات نہیں پا سکتا اور توحید کا حقیقی عرفان صرف اور صرف  آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آکر نصیب ہو سکتا ہے۔

غرض کہاں تک لکھیں اور کہاں تک سنائیں ۔ان تحریرات میں سے ایک یا دو کا انتخاب بہت مشکل ہے۔ نادان معترض کو کیا معلوم کہ  اپنی ذات اور صفات کا جو عرفان خدا نے اپنے عاشق صادق یعنی مسیح الزمان مہدی دوراں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو عطا فرمایا تھا اس کی خاک تک بھی یہ لوگ نہیں پہنچ سکتے۔ہم اس تحریر کے منصف مزاج قارئین کو ضرور تحریک کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کتب کواور ان تحریرات کو  جن کا ذکر صرف نمونہ کے طور پر کیا ہے کھول کر دیکھیں اور خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گائیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے اپنے اس پیارے مسیح و مہدی کو ہمارے درمیان بھیجا۔

ایک اقتباس حضرت اقدس ؑ کی مبارک تحریرات سے پیش ہے جس سے ثابت ہوتاہے کہ جماعت احمدیہ اس خدائے واحد و یگانہ کی ہی عبادت و پرستش کرتی ہے جو تمام اعلیٰ صفات سے متصف اور تمام رزائل سے منزہ ہے ۔

’’پس خلاصہ مطلب الحمدللہ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہےیا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے۔ وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں۔ اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے۔ مگر اللہ تعالیٰ بدقسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو۔ بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کرسکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے۔ جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے اور رزائل سے بکلّی منزہ ہے۔‘‘3

کیا اسمائے حسنیٰ کی تعداد محدود ہے:

چونکہ معترضین اپنے اعتراض میں بار بار یہ تکرار کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے جو بھی نام ہمارے علم میں  ہیں ان میں کہیں بھی ’یلاش ‘نام مذکور نہیں ۔اس سے یہ لگتا ہے کہ معترضین نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نام کسی محدود تعداد میں محصور ہیں اور اس سے زیادہ  نہیں ہو سکتے۔اگر وہ ایسا خیال کر بیٹھے ہیں تو یہ بالکل غلط ہےکیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اصل بیان کردیا ہے کہ  لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی4یعنی سب کے سب اچھے نام اسی کے ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے پورے قرآن مجید  میں کہیں بھی  اپنے اسماء کی تعداد کومحدود قرار نہیں دیالہذا اس تحدید کا اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ اس کی دلیل بھی پیش کرے۔

درحقیقت اگر خدا تعالیٰ کے پاک اسماء و صفات کو  محدود قرار دیا جائے تو یہ امر اس ناپیدا کنار ذات کی حد بست کرنے کے مترادف ہوگا جو کہ بالاتفاق محال ہے۔اس موقع پرحضرت رسول کریم ﷺ کی ایک  خوبصورت دعا کےوہ الفاظ یاد آگئےجو حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھا نے رات کی تنہائیوں میں آپﷺ کی زبان مبارک سے سنے ۔ فرمایا:

’لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ‘ 5
’ اے خدا میں تیرے محامد شمار ہی نہیں کر سکتا،تُو تو ویسا ہے جیسا تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔ ‘

سبحٰن اللہ جس خدا کے محامد کو حضرت نبی کریم ﷺ شمار نہ کر سکے یہ حضرات اپنے استہزاء کی وجہ سے ان کی حد بندی کرنے اور ان کا مکمل علم رکھنے کے دعویٰ دار بن گئے ہیں۔

پھرحدیث شریف کی طرف نگاہ دوڑائیں  تو مسند احمد بن حنبل میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ  کی مسند سے ایک روایت میں آنحضرت ﷺ کی ایک دعا کے الفاظ یوں نظر آتے ہیں:

أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ  سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ6

’ اے خدا میں تجھ سے تیرے ہر اُس نام کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنے لئے تجویز کیا ، یا تو نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا تو نے اپنی مخلوق میں کسی کو بھی سکھایا، یا جسے تو نے اپنے علم غیب میں محفوظ رکھا۔‘

اس حدیث کے مبارک الفاظ پر غور فرمائیں تو یہ معلوم ہو گا کہ  اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ چار اقسام میں منقسم ہیں۔

۱:  وہ مبارک اسماء جن کو خدا خوداپنے لئے تجویز کرے۔
۲: وہ اسماء جن کوخدا تعالیٰ  اپنی کتاب میں نازل کر دے۔
۳:وہ اسماء جو خدا تعالیٰ  اپنی تمام مخلوقات میں سے جس کو چاہےسکھا دے
۴:وہ اسماء جن کا علم خدا نے اپنے علم غیب میں محفوظ رکھاہے اور کسی کو عطا نہیں کیا۔

اوراس حدیث پاک سے مندرجہ ذیل دو امور بغیر کسی ابہام کے ثابت ہو تے ہیں:

۱:اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں میں سے جسے چاہے اپنے اسماء سکھاتا ہےاور’أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ‘ کے الفاظ کی رو سے اس میں کوئی روک نہیں۔
۲: خدا تعالیٰ کےبے شمار اسماء ایسے بھی ہیں جن کا علم اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں کیا بلکہ  اپنے علم غیب میں محفوظ رکھا ہے لہذا اسمائے حسنیٰ کی تعداد کو محدود قرار دینا یا تمام اسمائے حسنی ٰ کے مکمل علم کا دعویٰ کرنا ناممکن ہے۔

اب معترضین کا اعتراض دو ہی صورتوں میں درست مانا جا سکتا تھا کہ اگر  اسماء باری تعالیٰ کی تعداد محدود ہوتی اور وہ تمام اسماء ان حضرات کے علم میں ہوتےتب یہ لوگ تقاضا کرتے کہ جی چونکہ خداکا نام ’یلاش‘ ان معلوم اسماء حسنیٰ میں موجود نہیں لہذا غلط ہے۔یا دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی  خدا تعالیٰ کا اپنے پیاروں کو  اپناکوئی نام سکھادینا خدا کے قانون میں جائزہی نہ ہوتا اور یہ حضرات اعتراض کرتے کہ چونکہ خداتعالیٰ  اپنے اسماء کسی کو نہیں سکھاتالہذا جس نام کے سکھائے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہ  ردّ کیا جائے گا۔  لیکن مندرجہ بالا حدیث تو ان دونوں صورتوں کو مسترد کر تی ہے۔ اس حدیث کی رو سے خدا تعالیٰ کے بے شمار اسماء ایسے ہیں جن کا علم اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا اس لئے کوئی انسان اسماءحسنیٰ کے محدود ہونےیا تمام اسمائے حسنیٰ کا علم رکھنے  کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟ اور پھر جب وہ ان میں سے بعض کا علم اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہےتو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کو کسی نام کا علم دیا جانا کسی بھی طرح قابل اعتراض نہیں۔ ان علماء کا فرض تو یہ تھا کہ وہ خدا کے اس مبارک الہامی نام ’یَلَاشْ‘ یعنی یا لا شریک کی توقیر کرتے اور اس کے واسطہ سےبھی خدا سے مانگتےاور سوال کرتےجیسا کہ رسول کریم ﷺ  بڑی عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے اس کے ان تمام  ناموں کا واسطہ دے کر سوال کیا کرتے تھے جو خدا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھادے لیکن ان علماء کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔

اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام:

اگر کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ  بعض احادیث میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تعداد ننانوے بتائی گئی ہے بلکہ بعض احادیث میں تو معین طور پر اسماء الٰہی کو بیان بھی کیا گیا ہےتو ان احادیث  پر بھی ایک تفصیلی تبصرہ پیش خدمت ہے۔

یہ تبصرہ اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ عمومی طور پر عوام کے خیال میں خدا تعالیٰ کے اسماء کی تعداد صرف ننانوے ہی ہے جو کہ احادیث میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ ایک معترض اپنی ویڈیومیں’یلاش‘ نام کے الہاماً سکھائے جانے پر اپنا اعتراض یوں قائم کرتے ہیں کہ تمام مسلمان اور احمدی حضرات بھی خدا تعالیٰ کے ننانوے نام قرآن و حدیث سے اخذ کرتے ہیں۔ اب مرزا صاحب پر یہ سوواں نام نازل ہو گیا۔اگر اس نئے نام کو ان ننانوے ناموں میں داخل کر دیا جائے تو ان کی تعداد ننانوے نہیں رہے گی بلکہ ایک سو ہو جائے گی۔اگر اس نئے نام کوننانوے ناموں میں  داخل کریں گے تو کس بنیاد پر داخل کریں گے ؟اور اگر اس نام کوتسلیم نہ کریں اور مسترد کر دیں تو مرزا صاحب کی تحریر کردہ بات کہ خدا نےخود  اُن کو یہ نام سکھایا غلط ٹھہرے گی۔

اس طرز کے اعتراضات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہم  ان احادیث کے الفاظ پر غور کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تعداد ننانوےبیان کی گئی  ہے۔یہ احادیث  بخاری اور مسلم دونوں معتبر کتب ِحدیث میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی  ہیں اور ان دونوں میں روایت کے الفاظ ملتے جلتے ہیں۔بخاری میں  اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ أَحْصَيْنَاهُ حَفِظْنَاهُ7
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہوجائے گا۔(امام بخاری فرماتے ہیں کہ )أَحْصَيْنَاهُ کے معنی حَفِظْنَاهُ ہیں۔

اب اس حدیث پاک کے دو ہی ممکنہ معنی ہو سکتے ہیں ۔

۱: خداتعالیٰ کے اسماء کی تعداد صرف ننانوےہے اور وہ اس سے زائد نہیں ہو سکتے ۔
۲: خدا تعالیٰ کے اسماء لا محدود ہیں اور ان میں سے ۹۹ مبارک ناموں کو یاد کرنے والا اور ان کے معانی کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنے والاجنت میں داخل ہوگا۔

علمائے سلف میں سےاکثریت کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے معدودے چند نےغلطی سے اس پہلی بات کو قبول کر لیا ہے اور یہ رائے دی ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک نام صرف ۹۹ ہیں۔ ان علماء میں علامہ ابن حزم  الاندلسی (متوفیٰ ۴۵۶ھ) کا نام اہم ہے ۔ چنانچہ  انہوں نے اپنی کتاب المحلى بالآثارکی کتاب التوحید میں مسئلہ نمبر ۵۵ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درست بات یہی ہے کہ اسمائے الٰہی صرف ننانوے  ہیں اور کسی کے لئے بھی جائز نہیں وہ اس کا کوئی نام اس سے زائد قرار دے کیونکہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ’ایک کم ۱۰۰‘۔8

اگر یہ معترضین علامہ ابن حزمؒ کے ہم خیال و ہم نوا ہیں تو ہم یہ واضح کر دیتے ہیں کہ اُن  کی اس رائے کو علمائے سلف کی ایک بڑی تعداد نے بڑی شدّو مد سے ردّ کیا ہے اور  اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ کی تعداد کو کسی معین عدد میں محدود کرنا جائز نہیں سمجھا۔ چنانچہ ذیل میں ان میں سے چند علماء کی آراء کو درج کیا جاتا ہے ۔

شارح مسلم حضرت امام نوویؒ:

شارح صحیح مسلم حضرت امام یحیی ٰ بن شرف النووی(متوفیٰ۶۷۶ھ) نے صحیح مسلم کی شرح میں حدیث "إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًاپر تبصرہ کرتے ہوئے اس بات پر علماء کا اتفاق بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کی تعداد لا متناہی ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں:

"وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ فِيهِ حَصْرٌ لِأَسْمَائِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى ، فَلَيْسَ مَعْنَاهُ : أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ أَسْمَاءٌ غَيْرَ هَذِهِ التِّسْعَةِ وَالتِّسْعِينَ ، وَإِنَّمَا مَقْصُودُ الْحَدِيثِ أَنَّ هَذِهِ التِّسْعَةَ وَالتِّسْعِينَ مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ، فَالْمُرَادُ الْإِخْبَارُ عَنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ بِإِحْصَائِهَا لَا الْإِخْبَارِ بِحَصْرِ الْأَسْمَاءِ"9

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حدیث میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اسماء کو محدود نہیں کیا گیا۔ چنانچہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہےکہ خدا تعالیٰ کے ننانوے ناموں کے علاوہ کوئی اور نام نہیں۔اصل میں حدیث کا منطوق یہ ہے جو کوئی ان ننانوے ناموں کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔پس (ننانوے)اسماء حسنیٰ کے یاد کرنے پر جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی ہے نہ کہ ان اسماء کے محدود ہونے کی خبر۔

شارح بخاری علامہ ابن حجرؒ:

حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی معروف شرح فتح الباری کی كتاب الدعوات ، باب لله مائة اسم غير واحد میں فرماتے ہیں:

"وَقَدِ اخْتُلِفَ فِي هَذَا الْعَدَدِ هَلِ الْمُرَادُ بِهِ حَصْرُ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى فِي هَذِهِ الْعِدَّةِ أَوْ أَنَّهَا أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ … فَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إِلَى الثَّانِي وَنَقَلَ النَّوَوِيُّ اتِّفَاقَ الْعُلَمَاءِ عَلَيْهِ” 10
(ننانوےکے )اس عدد کے بارہ میں اختلاف ہے کہ کیا اس سےمراد یہ ہے کہ اسمائے حسنیٰ اس تعداد میں محدود ہیں  یا  اس سے زیادہ ہیں۔ تو جمہور علماء نے دوسری رائے کو تسلیم کیا ہے (کہ اسمائے حسنیٰ کی تعداد ننانوے سے زائد ہے) اور نووی نے تو اس بات پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے۔

اس کے بعد علامہ ابن حجر ؒ نے اس مؤقف کی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کی ہیں۔

الف: حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی  آنحضرت ﷺ کی دعاجو مسند احمد میں  مذکور ہے اور اس کو ابن حبان نے صحیح قرار دیا۔اس حدیث کا تذکرہ ہم اوپر کر آئے ہیں۔
ب: مؤطا امام مالک سے کعب الاَحبار کی دعا کے مندرجہ ذیل الفاظ: "أَعُوذُ بِوَجْهِ اللَّهِ الْعَظِيمِ۔۔۔ وَبِأَسْمَاءِ اللَّهِ الْحُسْنَى كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ” 11 میں اللہ تعالیٰ کے چہرہ کی پناہ مانگتا ہوں اور اس کے ان تمام اسمائے حسنیٰ کی بھی جن کا علم مجھےہے اور جن کو میں نہیں جانتا۔
ج: سنن ابن ماجہ میں مذکور حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنھا کی ایک دعا کے الفاظ جو انہوں نے حضرت رسول کریم ﷺ کی موجودگی میں کی۔ "وَأَدْعُوكَ بِأَسْمَائِكَ الْحُسْنَى كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ "12 میں تجھے تیرے ان تمام اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارتی ہوں جن کا علم مجھے ہے اور جن کو میں نہیں جانتی

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت پر تو تفصیلی تبصرہ کیا جا چکا ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور کعب الاحبار کی دعا کے الفاظ’’وہ تمام اسمائے حسنیٰ جن کا مجھے علم ہے اور  جن کو میں نہیں جانتا‘‘اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص خدا تعالیٰ کے تمام اسماء کا مکمل علم رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی تعداد لا محدود ہے۔لیکن ہمارے معترضین حضرات تو مصر ہیں کہ خداکا نام ’یَلاش‘ یعنی یا لا شریک چونکہ ان کے علم میں نہیں تھا لہذا انہیں مکمل آزادی ہے خواہ وہ اس نام کو گالیا ں دیں یا غلیظ سے غلیظ زبان اس نام کے متعلق استعمال کریں۔

 علامہ بدر الدین عینیؒ

شارح بخاری حضرت علامہ بدر الدین عینی (متوفیٰ ۸۵۵ھ) اسی روایت پر جس میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کی تعداد ننانوے بتائی گئی ہے تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"قَوْلُهُ: ( إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا ) لَيْسَ فِيهِ نَفْيُ غَيْرِهَا ، وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ…وَحَدِيثُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا…وَأَمَّا وَجْهُ التَّخْصِيصِ بِذِكْرِهَا فَلِأَنَّهَا أَشْهَرُ الْأَسْمَاءِ ، وَأَبْيَنُهَا مَعَانِيَ” 13

آنحضرت ﷺ کےاس قول کہ إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا میں ان (ننانوے) اسماء کے علاوہ دیگراسماء کے موجود ہونے کی نفی نہیں کی گئی اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے مروی حدیث اس بات پر دلیل ہے۔۔ اور اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی حدیث بھی (اسی پر شاہد ہے)۔ اور جہاں تک ان ناموں کے خاص طور پر ذکر کئے جانے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ (ننانوے) نام سب سے مشہور  ہیں اور معانی کے اعتبار سے سب سے واضح ہیں۔

امام ابن تیمیہؒ

شیخ الاسلام حضرت امام ابن تیمیہ (متوفیٰ۷۲۸ھ) کے نزدیک چونکہ قرآن کریم نے ننانوے کےعدد کی تعیین نہیں کی اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ کے پاک اسماء ننانوے سے زائد نہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

"والله فى القرآن قال ولله الأسماء الحسنى فإدعوه بها فأمر أن يدعى بأسمائه مطلقا ولم يقل ليست اسماؤه الحسنى إلا تسعة وتسعين إسما”14
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ تمام اسمائے حسنیٰ اسی کے ہیں پس تم ان کے ساتھ اسے پکارو تو دراصل اللہ نے ہمیں بس یہ حکم دیا ہے کہ اسے اس کے ناموں سے پکارا جائےنہ کہ یہ بتایا ہے کہ اس کے اسماء ننانوے سے زائد نہیں ہیں۔

پھر امام ابن تیمیہ نےبھی حضرت امام نووی ؒکی طرح اس بات پر جمہور مسلمانوں کےاتفاق کا ذکر کیا ہے کہ اسمائے باری کی تعداد ننانوے سے بہت زیادہ ہے۔

"فإن الذي عليه جماهير المسلمين أن أسماء الله أكثر من تسعة وتسعين ….ويدل على ذلك قوله في الحديث الذي رواه أحمد في المسند …..فهذا يدل على أن لله أسماء فوق تسعة وتسعين يحصيها بعض المؤمنين‏.”15
وہ بات جس پر جمہور مسلمان متفق ہیں وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء ننانوے سے زیادہ ہیں۔۔۔ اور اس بات پر حضرت نبی کریم ﷺ کا وہ قول دلالت کرتا ہے جس کو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔(پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں)پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے ننانوے سے زائد اسماء ہیں جن کا ذکر  بعض مومنین کرتے ہیں۔

امام ابن قیم جوزیؒ

امام ابن تیمیہؒ کے شاگرد رشید حضرت امام ابن قیم ؒ اپنی کتاب بدائع الفوائد میں اس مسئلہ پر کچھ یوں رقم طراز ہیں:

"الأسماء الحسنى لا تدخل تحت حصر، ولا تحد بعدد۔۔و اما قوله ﷺ ’’ إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ‘‘۔۔۔والمعنى: له أسماء متعددة من شأنها أن من أحصاها دخل الجنة، وهذا لا ينفي أن يكون له أسماء غيرها، وهذا كما تقول: لفلان مائة مملوك قد أعدهم للجهاد؛ فلا ينفي هذا أن يكون له مماليك سواهم معدون لغير الجهاد، وهذا لا خلاف بين العلماء فيه”16
یعنی اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کسی حد بندی  کے تحت  نہیں آتے  اور نہ ہی کسی عدد سے محدود ہیں۔ اور جہاں تک آنحضرت ﷺ کے اس قول کا تعلق ہے کہ’ خدا تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بے شمار اسماء ہیں جو کوئی ان کو یاد رکھے وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور اس میں اس بات کی نفی نہیں کہ اس کے اسماء اس کے علاوہ نہیں ہو سکتے۔ بلکہ اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ کہیں کہ فلاں کے ۱۰۰ غلام ہیں جن کو اس نے جہاد کے لئے تیار کیا ہےتو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کے اِن ایک سو کے علاوہ کوئی اور غلام نہیں۔ اور اس مسئلہ میں علماء میں کوئی اختلاف نہیں۔

گویا امام ابن قیّم ؒ کے نزدیک خدا کے بے شمار ناموں میں سے جو ننانوے نام یاد رکھے گا اور ان کا ذکر کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔

بعض دیگر علماء کا مؤقف:

مندرجہ بالا حوالوں سے یہ واضح ہے کہ امام نوویؒ، امام ابن حجر ؒ، امام ابن تیمیہ ؒ وغیرہ اسمائے حسنیٰ کے لامحدود ہونے کے عقیدہ پر علماء کا اتفاق بیان کرتے ہیں جبکہ امام ابن قیم ؒ کے نزدیک اس بارہ میں علماء میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس مضمون میں تو صرف چند علماء کی تحریرات  کو بطورمشتے نمونہ پیش کیا گیا ہے ورنہ علامہ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اس مسئلہ پر  کئی علماء کی  رائے کو درج کیا ہے ۔ جیسے امام ابو سلیمان الخظّابی، امام قرطبی، قاضی ابوبکر بن طیّب، امام فخر الدین رازی ؒ اور قاضی ابو بکر بن العربی وغیرہ کی رائے فتح الباری میں موجود ہے۔

لہذا ثابت ہو ا کہ خدا تعالیٰ کی اسماء کی تعداد لا محدود ہے اور اس مسئلہ میں صاحبِ مُحلّٰیکا قول شاذ کی حیثیت رکھتا ہے جس کو علماء کی بڑی تعداد ردّ کرتی ہے۔قرآن و حدیث اور علمائے سلف کے اقوال و آراء ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔

ننانوےناموں کی تعیین کرنے والی احادیث پر تبصرہ:

صحیح بخاری و مسلم میں موجود حدیث مبارکہ کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی ان کو یاد رکھے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گاپر تفصیلی تبصرہ کیا جا چکا ہے ۔ اس عنوان کے تحت ہم ان روایات پر غور کریں گے جن میں ان اسماء حسنیٰ کی تعیین کی گئی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ معترضین کے اعتراضات میں اس بات کی تکرار کی گئی ہے کہ خدا کے جو ننانوے نام مشہور ہیں ان میں ’یَلاش‘ نام مذکور نہیں ۔ اس کے علاوہ عوام الناس میں سےبھی اکثر کا یہی عقیدہ نظر آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کےصرف ننانوے نام ہیں جو کہ حدیث میں وارد ہیں۔

جن احادیث میں ان اسماء کی تعیین کی گئی ہے یعنی نام گنوائے گئے ہیں ان روایات میں سے سب سے مشہور روایت سنن ترمذی کتاب الدعوات میں آئی ہے اور اس روایت کا مکمل متن درج ذیل ہے:

"حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجُوزَجَانِيُّ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ الْغَفَّارُ الْقَهَّارُ الْوَهَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْمُعِزُّ الْمُذِلُّ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ الْحَكَمُ الْعَدْلُ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ الْحَلِيمُ الْعَظِيمُ الْغَفُورُ الشَّكُورُ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ الْحَفِيظُ الْمُقِيتُ الْحَسِيبُ الْجَلِيلُ الْكَرِيمُ الرَّقِيبُ الْمُجِيبُ الْوَاسِعُ الْحَكِيمُ الْوَدُودُ الْمَجِيدُ الْبَاعِثُ الشَّهِيدُ الْحَقُّ الْوَكِيلُ الْقَوِيُّ الْمَتِينُ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ الْمُحْصِي الْمُبْدِئُ الْمُعِيدُ الْمُحْيِي الْمُمِيتُ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ الْأَوَّلُ الْآخِرُ الظَّاهِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِيَ الْمُتَعَالِي الْبَرُّ التَّوَّابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُوُّ الرَّءُوفُ مَالِكُ الْمُلْكِ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِيُّ الْمُغْنِي الْمَانِعُ الضَّارُّ النَّافِعُ النُّورُ الْهَادِي الْبَدِيعُ الْبَاقِي الْوَارِثُ الرَّشِيدُ الصَّبُورُ

 قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا بِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ صَالِحٍ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ صَفْوَانَ بْنِ صَالِحٍ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ فِي كَبِيرِ شَيْءٍ مِنْ الرِّوَايَاتِ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ ذِكْرَ الْأَسْمَاءِ إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ” 17

سن ترمذی کی اس روایت کے علاوہ جن روایات میں اسماء کی تعیین کی گئی ہے ان میں سےدو روایات زیادہ مشہور ہیں۔ ایک روایت سنن ابن ماجہ کتاب الدعا، باب اسماء اللّٰہ عزّو جلّ میں مذکور ہے اور دوسری ایک مختلف سند کے ساتھ مستدرک امام حاکم میں مذکور ہے۔اگرچہ ان تینوں  روایات میں سے سنن ترمذی کی مذکورہ بالاروایت کو ہی سب سے درست اور مستند مانا گیا ہےلیکن  اس روایت کی سند اور متن پر بھی بے شمار علماء شدید تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔حضرت امام ترمذی نے بھی اس حدیث کے آخر میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےیہ نوٹ دیا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے علاوہ ناموں کی تعیین کرنے والی کوئی اور صحیح السند روایت ان کے علم میں نہیں۔

تعیین اسماء والی احادیث کو امامین کا ردّ کرنا:

یہ بات قابل غور ہے کہ  اسماء حسنیٰ کی تعیین کرنے والی ان روایات کو شیخین یعنی امام بخاریؒ اور مسلم ؒنے قبول نہیں کیا  یہاں تک کہ ان تینوں میں سے درست ترین روایت جو کہ ترمذی کی ہے وہ بھی بخاری و مسلم میں شامل نہیں۔ اس روایت کے ردّ کئے جانے کی وجہ کے متعلق علماء میں بحث ہے۔ چنانچہ حضرت امام حاکم اپنی کتاب مستدرک میں اس کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں:

"هَذَا حَدِيثٌ قَدْ خَرَّجَاهُ فِي الصَّحِيحَيْنِ بِأَسَانِيدَ صَحِيحَةٍ دُونَ ذِكْرِ الْأَسَامِي فِيهِ ، وَالْعِلَّةُ فِيهِ عِنْدَهُمَا أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ مُسْلِمٍ تَفَرَّدَ بِسِيَاقَتِهِ بِطُولِهِ ، وَذَكَرَ الْأَسَامِي فِيهِ وَلَمْ يَذْكُرْهَا غَيْرُهُ”18
اس( ننانوے ناموں والی)حدیث کو صحیح اسناد کے ساتھ صحیحین نے اسماء کے ذکر کے بغیر  درج کیا ہے اور اس کی وجہ ان دونوں (امام بخاری و مسلمؒ) کے نزدیک ولید بن مسلم کاان اسماء کے روایت کرنے میں منفرد ہونا ہے۔اورولید نے تو اس روایت میں اسماء کا ذکر کیا ہے جبکہ ان کا ذکر اُس کے علاوہ کسی نے نہیں کیا۔

شارح بخاری حضرت علامہ ابن حجر ؒ نے اسماء باری کی تعیین کرنے والی تینوں مشہور روایات کی تخریج کی ہے اور  ان کے  ضعف پر تفصیلی بحث فرمائی اس کے بعد امام حاکم کی بات کو ردّ کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ بات درست نہیں کہ امامین نےصرف راوی  ولید بن مسلم کے منفرد ہونے کی وجہ سے اس روایت کو چھوڑ دیا بلکہ اس کی اور بھی وجوہات ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

"لَيْسَتِ الْعِلَّةُ عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ تَفَرُّدَ الْوَلِيدِ فَقَطْ بَلْ الِاخْتِلَافُ فِيهِ وَالِاضْطِرَابُ وَتَدْلِيسُهُ وَاحْتِمَالُ الْإِدْرَاجِ”19
یعنی  شیخین کے نزدیک اس کی وجہ محض ولید کا ان اسماء کے روایت کرنے میں منفرد ہونا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ ان روایات میں اختلاف اور اضطراب اور تدلیس کا پایا جانا اور ادراج کا احتمال ہے۔

یہ چاروں ایسی علّتیں ہیں کہ اگر کسی حدیث میں پائی جائیں تو وہ حدیث صحت کے مرتبہ سے گر جاتی ہے۔ ان چاروں کی تشریح کوہم مضمون کی طوالت کے پیش نظر چھوڑتےہیں کیونکہ کسی حد تک اگلے حصہ مضمون میں ان کا مفہوم سمجھ آ جائے گا۔

تعیین اسماء کی احادیث میں اختلاف کی مثالیں:

اسمائے مبارکہ بیان کرنے والی کوئی سی دو روایات بھی ان ناموں کی تعیین میں متفق نہیں ہیں اور اس وجہ سے اکثر علماء کے نزدیک اصل روایت وہی ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا  کہ  اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انہیں یاد کرے گا وہ جنت میں جائے گا۔ ان ناموں کی تخصیص نبی کریم ﷺ کی طرف سے نہیں ۔چنانچہ ان روایات میں اختلافات کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔

۱:  ابن ماجہ  کتاب الدعا میں مذکور روایت سنن ترمذی کتاب الدعوات میں مذکور روایت سے کئی طرح سے مختلف ہے۔ ترتیب کے اختلاف کے علاوہ ابن ماجہ کی روایت میں بعض نام زائد ہیں اور بعض نام کم بھی ہیں۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ کی روایت میں الْبَارُّ، الرَّاشِدُ، الْبُرْهَانُ، الشَّدِيدُ، الْوَاقِي، الْقَائِمُ، الْحَافِظُ، الْفَاطِرُ، السَّامِعُ، الْمُعْطِي، الْأَبَدُ، الْمُنِيرُ اور التَّامُّ کے اسماء زائد ہیں اور ان کا نام و نشان بھی ترمذی کی روایت میں نہیں۔
۲: ترمذی میں ولید بن مسلم کے واسطے سے مروی روایت جب سند کے معمولی فرق کے ساتھ طبرانی میں آئی تو وہاں الْقَابِضُ اور الْبَاسِطُ کی جگہ الْقَائِمُاورالدَّائِمُ اور الْوَدُودُ الْمَجِيدُ الْحَكِيمُ کی جگہ الْأَعْلَى الْمُحِيطُ مَالِكُ يَوْمِ الدِّينِ اسماء مذکور ہیں20

یہ دونوں مثالیں تو بطور نمونہ  پیش کی گئی ہیں ورنہ دراصل تعیین اسمائے باری کرنے والی کوئی سی دو روایات کے الفاظ بھی ایک جیسے نہیں ہیں   اور اس موضوع پر بعض تفصیلی کتب میں ان اختلافات کو تفصیلی جدول بنا کر بھی واضح کیا گیا ہے۔

اب اگر اسمائے حسنٰی محض یہی ننانوے ہوتے جو ان روایات میں مذکور ہیں اور جیسا کہ اس اعتراض میں بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ننانوے اسماء میں یلاش کا نام بھی دکھائیں تو ان روایات کو ان کی تعیین میں متفق ہونا چاہئے تھا۔ ان روایات کا اختلاف ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسماء باری تعالیٰ صرف وہ نہیں ہیں جو کہ ترمذی یا ابن ماجہ کی روایت میں مذکور ہیں۔

تعیین اسماء والی احادیث میں ادراج:

پھر جیسا کہ علامہ ابن حجر ؒ نے ان روایات میں تدلیس اور ادراج کے احتمال کو ظاہر کیا تھا۔ادراج کا سادہ الفاظ میں مفہوم یہ ہےکہ اصل حدیث کے الفاظ میں معین اسماء والا حصہ بعض راویوں نے بعد میں اپنی طرف سے بڑھا دیا۔ اس کے ثبوت میں علامہ ابن حجر ؒ نے اس امر کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ سنن الدارمی میں ولید بن مسلم کے واسطہ سے ایک اور سند سے یہ حدیث آئی ہے اور سنن الدارمی کی اس روایت میں اسماء کی تعیین نہیں کی گئی اور صرف الفاظ یہ ہیں "لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا من احصاها دَخَلَ الْجَنَّةَ” اورسنن الدارمی میں موجود ولید بن مسلم کی  روایت جس میں اسماء کی تعیین نہیں ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل روایت کے الفاظ وہی ہیں جو کہ بخاری اور مسلم میں موجود ہیں اور اسماء کی تعیین بعد کے کسی راوی کی طرف سے کیا جانے والا اضافہ ہے۔

پھر اسی ضمن میں بعض دیگرعلماء کے حوالہ جات بھی پیش خدمت ہیں جنہوں نے تعیین اسماء کومُدرَج قرار دیا ہے۔

۱: امام بیہقی نے اپنی کتاب الاسماء والصفات میں اسی احتمال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اسماء کی یہ تعیین بعض راویوں نے کی ہو اور اسی احتمال کی وجہ سے امام بخاری و مسلم نے ولید بن مسلم کی حدیث کو اپنی صحیح میں درج نہیں کیا۔ عربی عبارت کے اصل الفاظ یہ ہیں: "ويحتمل أن يكون التفسير وقع من بعض الرواة۔۔۔۔ ولهذا الاحتمال ترك البخاري ومسلم إخراج حديث الوليد في الصحيح”21
۲: شارح بخاری علامہ عسقلانی ؒ بعض دیگر علماء کی آراء کو یوں درج کرتے ہیں : "فَقَالَ الدَاوُدِيُّ: لَمْ يَثْبُتْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَيَّنَ الْأَسْمَاءَ الْمَذْكُورَةَ وَقَالَ ابْنُ الْعَرَبِيِّ يُحْتَمَلُ أَنْ تَكُونَ الْأَسْمَاءُ تَكْمِلَةَ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ وَيُحْتَمَلُ أَنْ تَكُونَ مِنْ جَمْعِ بَعْضِ الرُّوَاةِ وَهُوَ الْأَظْهَرُ عِنْدِي”22

علامہ داودیؒ(عبد الرحمان بن مظفر الداودی متوفیٰ۴۶۷ھ) نے کہا کہ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی کریم ﷺ نے ان مذکورہ اسماء کو معین طور پر بیان کیا ہواور اسی طرح علامہ ابن عربی ؒکہتے ہیں کہ اس بات کا احتمال ہے کہ یہ اسماء ایک مرفوع حدیث کا تکملہ ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ بعض راویوں نے جمع کئے ہوں،اور( ابن حجر کہتے ہیں کہ) یہ بات میرے نزدیک زیادہ قرین قیاس ہے۔

اب قارئین اس بات پر غور کریں کہ  جن ننانوے اسماء میں ’یلاش ‘نام کے موجود نہ ہونے کا شکوہ یہ علماء کرتےہیں ان اسماء کو تو مختلف علماء سلف راویوں کی طرف سے شامل کیا جانے والا اضافہ بتلاتے ہیں اور ان کے نزدیک اسماء کی یہ تعیین حضرت نبی کریم ﷺ کے کلام کا حصہ ہے ہی نہیں۔پس اس صورتحال میں ان کا یہ مطالبہ کہ یہ نام ہمیں ان ننانوے میں دکھایا جائے کس قدر نا انصافی پر مبنی ہے۔

تعیین اسماء کی احادیث کا کئی اسماء کا ذکر نہ کرنا:

اگر یہ کہا جائے کہ قرآن و سنت اور حدیث کے تتبع سے جن اسماء کا ذکر ہمیں ملتا ہے ان کو ان تعیین والی  روایات میں شامل کر دیا گیا ہےاور امت میں ان کے رائج ہو جانے کی وجہ سے انہی پر حصر کر لینا چاہئے اورصرف انہی ننانوے کو ہی خدا کے نام سمجھ لینا چاہئے تو یہ بھی درست نہیں ہے  کیونکہ وہ ننانوے نام جو ان روایات میں مذکور ہیں ان میں سے بعض قرآن وحدیث سے ثابت ہی نہیں اور بعض اسماء کی کوئی سند نہیں ۔

چنانچہ علامہ ابن حجرؒ امام  ابْنِ عَطِيَّةؒ کا قول یوں نقل کرتے ہیں:

"فِي سَرْدِ الْأَسْمَاءِ نَظَرٌ فَإِنَّ بَعْضَهَا لَيْسَ فِي الْقُرْآنِ وَلَا فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ”23
یعنی اسماء کی تعیین محل نظر ہے چونکہ ان میں سے بعض نہ قرآن میں ہیں اور نہ ہی حدیث صحیح میں ان کا ذکر ملتا ہے۔

جہاں ایک طرف یہ بات محل نظر ہے کہ ان اسماء میں سے بعض قرآن و حدیث سے ثابت نہیں وہاں بعض اسماء ایسے بھی ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں تو موجود ہے لیکن ان کو اس تعیین میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ مثلاً ترمذی کی روایت جس کو اسماء کی تعیین کرنے والی احادیث میں سے سب سے زیادہ درست سمجھا گیا ہے وہ بھی خداتعالیٰ کے بعض ایسے اسماء کا ذکر کرنے سے قاصرہے جو کہ قرآن کریم میں واضح طور پر مذکور ہیں۔جیسا کہ  الرّبّ یا القَدیرُ اور الخلاّقُ، یہ اسماء قرآن کریم میں مذکور ہیں لیکن ترمذی کی روایت جس کا مکمل متن اوپر گزر چکا ہے اس میں ندارد۔ اسی وجہ سے امام  ابْنِ عَطِيَّةؒ فرماتے ہیں:

"حَدِيثُ التِّرْمِذِيِّ لَيْسَ بِالْمُتَوَاتِرِ وَفِي بَعْضِ الْأَسْمَاءِ الَّتِي فِيهِ شُذُوذٌ ، وَقَدْ وَرَدَ فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا حَنَّانُ يَا مَنَّانُ وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ التِّرْمِذِيِّ وَاحِدٌ مِنْهَا”24
یعنی ترمذی کی حدیث متواتر نہیں ہے اور بعض اسماء میں شذوذ ہےجیسا کہ نبی کریم ﷺ کی دعا میں  یا حنان اور یا منان کے الفاظ مذکور ہیں لیکن ترمذی کی روایت میں ان دونوں میں سے ایک بھی موجود نہیں۔

اب آپ غور کیجئے کہ علماء جن روایات میں سے ’یلاش‘ کا نام نکال کر دکھانےکاہم سے مطالبہ کر رہے ہیں ان روایات میں تو ایسے کئی اسماء موجود نہیں ہیں جو کہ بڑے واضح طور پر قرآن مجید یا صحیح احادیث میں مذکور ہیں بلکہ اس کے برعکس بعض ایسے اسماء ان روایات کا حصہ بنے ہوئے ہیں کہ علماء کے نزدیک ان کی قرآن و حدیث میں کوئی اصل نہیں۔

علماء کا تعیین اسماء والی روایات کو مکمل ردّ کرنا:

مندرجہ بالا تفصیلی وجوہات کی بنا ء پر بے شمار علماء ایسے ہیں جنہوں نے ان روایات کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا اور بیک قلم ردّ کر دیا ہے۔ اگرچہ ہم ان روایات کو یکسر ردّنہیں کرتےاور سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے بے شمار صفاتی ناموں میں سے ننانوے نام ان روایات میں مذکور ہیں ۔ تاہم اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اسمائے باری صرف یہی ننانوے ہیں اور پھر طعن کی زبان دراز کرتے ہوئے گالیاں دینے سے بھی نہ چوکے تو ایسے معترض کے لئے ان چند علماء کا نقطہ نظر پیش ہے جنہوں نے ان احادیث کو مکمل طور پر ردّ کر دیا ہے۔

علامہ ابن حزمؒ:

علمائے سلف میں سے صاحبِ محلّیٰ یعنی علامہ ابن حزم ؒ  کا ذکر ہم کر آئے ہیں کہ وہ  اس عقیدہ کے قائل تھے کہ اسماء حسنیٰ کی تعداد صرف ننانوے ہےجبکہ ان کی اس رائے کو علماء کی اکثریت نے بڑی شدّو مدّ سے ردّ کیا ہے۔ وہ بھی خدا تعالیٰ کے اسماء کی تعداد کو صرف ننانوے سمجھنے کے باوجود ان ناموں کی تعیین کرنے والی احادیث کوبالکل درست نہیں سمجھتے تھے۔چنانچہ وہ اپنی کتاب المحلى بالآثارکیكتاب الأَيمان میں  فرماتے ہیں:

"جَاءَتْ أَحَادِيثُ فِي إحْصَاءِ التِّسْعَةِ وَالتِّسْعِينَ أَسْمَاءٌ مُضْطَرِبَةٌ لَا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ أَصْلًا”25
اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کی تعیین کرنے میں بعض مضطرب احادیث آئی ہیں جن میں سے حقیقت میں کچھ بھی صحیح نہیں ہے۔

امام ابن تیمیہؒ:

امام ابن تیمیہ ؒ ننانوے اسماء کی تعیین کرنے والی کسی بھی حدیث کو صحیح قرار نہیں دیتے تھے اور ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات کے بارہ میں تووہ اہل معرفت کا اتفاق نقل کرتے ہیں کہ ان دونوں روایات میں مذکور اسماءنبی کریم ﷺ کا کلام ہے ہی نہیں بلکہ سلف میں سے کسی کے جمع کردہ ہیں۔

چنانچہ ان سے ایک دفعہ یہ سوال کیا گیا کہ جبکہ خدا تعالیٰ کے ننانوے اسماء کے علاوہ کسی اور نام سے خدا سے دعا کرنا جائز نہیں تو اگر کوئی یامنّان کہے یا یاحنّان کہے تو کیا یہ جائز ہے؟ تو سب سے قبل انہوں نے اس بات کو بالکل غلط قرار دیا  کہ خدا تعالیٰ کے نام صرف ننانوے ہیں جن کے سوا کسی اور نام سے دعا نہیں کی جا سکتی اور پھر تعیین اسماء کرنے والی احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے   فرمایا:

"أن التسعة والتسعين اسما لم يرد في تعيينها حديث صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم”26
یعنی ان ننانوے ناموں کی تعیین میں نبی ﷺ سے کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی ۔

بعد ازاں ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات کے ضعف پر اہل معرفت کےاتفاق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وقد اتفق أهل المعرفة بالحديث على أن هاتين الروايتين ليستا من كلام النبي صلى الله عليه وسلم وإنما كل منهما من كلام بعض السلف”27
یعنی حدیث کی معرفت رکھنے والے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ دونوں روایات (یعنی ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت) نبی کریم ﷺ کے کلام میں سے نہیں اور یہ مکمل طور پر سلف کا کلام ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر بے شمار علماء کے حوالہ جات پیش کئے جاسکتے ہیں جنہوں نے بعینہٖ اسی طرز پر اسمائے باری کی تعیین کرنے والی احادیث کو ردّ کر دیا ہے لیکن ہم انہیں حوالہ جات پر اکتفاء کرتے ہیں۔

اسمائے حسنیٰ کی تعداد ایک ہزار یا چار ہزار:

چونکہ اکثر علماء  کا اس امر پر اتفاق ہے کہ خدا تعالیٰ کے اسماء محدود نہیں اور ننانوے اسماء کی جو تعیین بعض حدیثوں میں کی گئی ہے وہ بھی مکمل نہیں ہے اس لئے بے شمار علماء نے ان اسماء کو خود گننے اور ان کی تعیین کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں صرف قرآن مجید سےہی ۲۷ مزید اسماء باری تعالیٰ کی تخریج کی ہے جو کہ ترمذی کی روایت میں شامل نہیں ہیں۔اسی طرح مختلف علماء قرآن وحدیث کا تتبع کرکے اپنے اجتہاد سے اسمائےباری تعالیٰ کی مختلف تعداد بیان کرتے رہے ہیں۔

اسی ضمن میں ایک دلچسپ روایت قاضی ابو بکر بن العربی ؒنے اپنی کتاب الأحوذي في شرح الترمذي میں درج کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار اسماء ہیں,29 28

اور اسی طرح امام فخر الدین رازی ؒ نے تفسیر کبیر میں ایک روایت یہ بھی لکھی ہے کہ اللہ کےاسماء کی تعداد چار ہزار ہے۔ چنانچہ وہ سورۃ طٰہٰ کی آیت ’ما انزلنا الیک القرآن لتشقیٰ‘ کی تشریح میں لکھتےہیں کہ کہا جاتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ کے چار ہزار اسماء ہیں جن میں سے ایک ہزار اسماء کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتااور ایک ہزار نام ایسے ہیں کہ ان کو صرف خدا اور اس کے فرشتے جانتے ہیں اور پھر تیسرا ہزار ایسے اسمائے الٰہی کا ہے جن کو صرف اللہ اس کے فرشتے اور اس کے انبیاء جانتے ہیں اور چوتھے ہزار کے علم میں عام مومنین بھی شریک ہیں ۔ اس آخری ہزار میں سے تین سو نام تورات میں بیان ہوئے اورتین سو نام انجیل میں اور تین سو نام زبور میں بیان ہوئےاور آخری ایک سو فرقان میں بیان ہوا جس میں سے ۹۹ نام معروف ہیں اور ایک نام مکتوم یعنی چھپا ہوا ۔30

اب جبکہ علمائے امت اسمائے باری تعالیٰ کی تعداد ایک ہزار یا چار ہزار تک بیان کرتی رہی ہے اور اکثر علماء ان کے لامحدود ہونے کا عقیدہ رکھتے رہے ہیں تو اگر ان لامحدود صفاتی ناموں میں سے ایک کا علم خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کر دیا تو اس پر کیا اعتراض ہے۔ یہ تو ایسا ہی اعتراض ہے کہ جیسے عرب کے مشرکوں نے  رسول عربی ﷺ پر کیا تھا کہ قرآن مکّہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں ہوا؟ جو جواب آج سے چودہ سو سال قبل خدا تعالیٰ نے ان اعتراض کرنے والے مشرکین کو دیا تھا وہی آج ہم ان علماء کو دیتے ہیں :

أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ
کیا تیرے رب کی رحمت کے خزانوں کو یہ بانٹنے والے ہیں؟

ایک اور استہزاء ،عبد الیلاش یا امۃ الیلاش:

یہاں معترضین کی طرف سے کئے گئے ایک اور استہزاء کا بھی ذکر کرتا ہوں جس کی تکرار بار بار سوشل میڈیا پر کی جا رہی ہے۔ معترضین بار بار یہ سوال احمدی حضرات کے سامنے رکھتے ہیں کہ اگر یلاش خدا کا نام ہے تو کیوں احمدی حضرات اپنے ناموں میں اسے استعمال نہیں کرتے اور کیوں عبد الیلاش ، یا امۃ الیلاش نام نہیں رکھے جاتے؟یا یہ کہ احمدی حضرات کیوں اپنی مساجد کے نام بیت الیلاش یا مسجد یلاش نہیں رکھتے؟

اگرچہ ان کے اس استہزاء کی حیثیت ایک طنز سے زیادہ نہیں ہے جو کہ ہرگز در خور اعتناء نہیں ۔ تاہم پھر بھی  جواباً عرض ہے کہ کیا یہ حضرات اپنے بچوں کے ناموں میں خدا تعالیٰ کے ان تمام صفاتی ناموں کو استعمال کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ملتا ہے؟ اور کیا ان حضرات کے نزدیک خدا تعالیٰ کے کسی پاک صفاتی نام کے درست ہونے کا معیار یہی ہے کہ اس کے نام پر کسی مسجد کا نام رکھ لیا گیاہے ؟اگر کل کو جماعت احمدیہ اپنی کسی مسجد کا نام’ مسجد یلاش‘ رکھ دے یعنی اس خدا کا گھر جو کہ لا شریک ہے اور اس کی صفات میں اور اس کے کاموں میں کائنات کی کوئی بھی چیز اس کا شریک نہیں تو یہ لوگ اپنے استہزاء سے توبہ کر لیں گے؟ان تمام سوالات کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔

اگر ہم یہ سوال الزامی طور پر ان علماء سے پوچھیں کہ خدا تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ  میں  الْقَهَّارُ، الْمُذِلُّ، الْمُمِيتُ اورالْمُنْتَقِمُ وغیرہ بھی ہیں۔کیا ان اسماء کو وہ اپنے اس خود ساختہ معیار پر تول چکے ہیں؟ہم نے تو کبھی کسی کا نام ’عبدالْمُمِيت‘ یعنی’ موت دینے والے خدا کا بندہ‘ نہیں سنا۔ اگر کبھی کسی نے اپنے بچہ کا نام ’عبدالْمُنْتَقِمُ‘یعنی ’انتقام لینے والے خدا کا عبد‘ رکھا ہو تو بتائے ۔ پھر بخاری اور مسلم دونوں میں خدا تعالیٰ کے بارہ میں یہ الفاظ موجود ہیں ’أَنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ‘ یعنی خدا ’وتر‘ ہے ۔یہ لفظ ’و‘  کی زیر اور زبر دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ کیا یہ حضرات اپنے حلقوں میں کوئی ’عبدالوَتر‘ نام کے کوئی صاحب دکھا سکتے ہیں؟اور اگر ان ناموں والا کوئی ذی روح ان کو نہ ملے تو کیا یہ خدا کے ان پاک اسماء پر بھی طعن کی زبان دراز کریں گے۔ اب قارئین خود ان کے اس اعتراض  کی حقیقت پر غور کر سکتے ہیں ۔

کیا’کالو‘یا  ’کالا‘ بھی خدا کا نام ہے:

یہاں اسمائے باری تعالیٰ کے متعلق معترضین کے ایک اور اعتراض کا ذکر بھی کر دیتے ہیں ۔ یہ اعتراض حضرت مفتی محمد صادق ؓصاحب کی تصنیف ’ذکر حبیب‘  میں مذکور ایک روایت  پرکیا گیا ہے۔ اعتراض یہ  ہے کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک خدا کا ایک نام ’کالو‘ یا  ’کالا‘بھی ہے۔ نعوذ باللہ

اصل روایت کچھ یوں ہے کہ حضرت مفتی صاحب ؓ نےلاہور میں ملازمت کے زمانے میں  ایک خواب دیکھی کہ  ’کالو‘ نام کا ایک غیر مرد اُن کے گھر کے زنان خانہ میں بلا تکلف گھس آیا ہےاور ان کی اہلیہ نے اس سے کچھ پردہ نہیں کیا۔ حضرت مفتی صاحب ؓ کے دل میں اس خواب سے انقباض پید ا ہوا ۔تاہم چونکہ یہ ایک خواب تھالہذا انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بذریعہ خط اس خواب کی تعبیر دریافت کی جس پر جواب آیا۔

’’اگر آپ کے گھر میں حمل ہے تب اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے گھر لڑکا پیدا ہوگا۔ کالو۔کالادراصل عربی الفاظ ہیں۔ اس کے معنی ہیں نگاہ رکھنے والا۔ یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے۔ کالو کے گھر میں آنے کی یہ تعبیر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل مرحلہ حمل میں آپ کی بیوی کا نگہبان ہوگا اور فرزند نرینہ عطا کرے گا‘‘31

حضرت مفتی صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ حسن اتفاق سے ان دنوں ہمارے گھر میں حمل تھا جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کچھ خبر نہ تھی۔چنانچہ اس تعبیر کے عین مطابق ایام حمل پورے ہونے پرحضرت مفتی صاحب کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کی پیدائش کو خدا نے خود اپنے خاص فضل سے ہر قسم کی پیچیدگی سے محفوظ رکھا۔

علم تعبیر الرؤیا ء ایک ایسا آسمانی علم ہے جو خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو محض اپنے خاص فضل سے عطا کرتا ہےاور کسی غیر متقی کو اس علم سے حصہ نہیں دیا جاتا۔ چنانچہ سور ۃ یوسف کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ علم خدا تعالیٰ نے خاص طور پر بطور احسان اپنے پیارے نبی حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا کیا تھا۔

اب غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پراس علم لدنیّ کے دروازے کس شان سے کھولے تھےکہ ’کالو‘ نامی شخص کے گھر میں داخل ہونے کی  رویاء سے کوئی کیا نتیجہ نکال سکتا ہے لیکن آپ علیہ السلام اس کی تعبیر یہ فرماتے ہیں  کہ اگر گھر میں حمل ہے تو خدا بیٹا دے گا اوراُس کی پیدائش کے موقع پر نگاہ رکھنے والے خدا کے فضل سے کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہوگی۔ اللہ کی قدرت کہ اس موقع پر گھر میں حمل بھی تھا اور خدا تعالیٰ نے اس تعبیر کو سو فیصد پورا کرتے ہوئے اولاد نرینہ بھی عطا کی اور ہر پیچیدگی سے محفوظ رکھا۔  لیکن معترض نے اس تمام روایت کی خوبصورتی کو یکسر نظر انداز  کر دیا اور بس ایک سطر کے مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ اعتراض بنا دیا جس کا تمام واقعہ میں کچھ ذکر نہیں۔

’کالو‘ اور ’کالا‘ ہرگز خدا کے نام نہیں ہیں ۔اس بات کو سمجھنے کے لئے روایت کے اصل الفاظ پر  غور کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو الفاظ مفتی محمد صادق صاحبؓ نے روایت کئے ہیں وہ یوں ہیں:

’’ کالو۔کالادراصل عربی الفاظ ہیں۔ اس کے معنی ہیں نگاہ رکھنے والا۔ یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے۔‘‘

یعنی کالو یا کالا عربی الفاظ ہیں جن کے معنی نگاہ رکھنے والے کے ہیں۔ اس کے بعدگویا حضور فرماتے ہیں کہ ’’نگاہ رکھنے والا‘‘خدا تعالیٰ کا وجود ہے اور یہ اُسی کا نام ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ خدا کے اسمائے حسنیٰ میں سے کئی ناموں کا مفہوم یہی ہے کہ نگاہ رکھنے والا۔ خدا تعالیٰ کے اسماءمیں سے’الْبَصِير‘،’الرَّقِيب‘ اور ’الْخَبِير‘وغیرہ  اسماءاسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں ۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’کالو‘ یا ’کالا‘ کے الفاظ کو خدا کے اسماء قرار دیا ہوتا تو اصل جملہ یوں ہونا چاہئے تھا:’یہ خدا تعالیٰ کے نام ہیں‘۔ چونکہ کالو اور کالادو الفاظ ہیں اور جمع ہیں۔ اور ان کے لئے پچھلا جملہ جمع میں ہی تھا۔ جیسے کہ فرمایا:’یہ عربی الفاظ ہیں‘۔ لہذا یہ بالکل واضح بات ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کےاصل  الفاظ یوں ہیں’’ نگاہ رکھنے والا۔ یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے۔‘‘ اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ خدا بصیر اور رقیب ہےیعنی نگاہ رکھنے والا ،نگرانی  اور نگہبانی کرنے والا ۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے کوئی یہ کہے کہ’سامِع‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’سننے والا‘‘ ۔ یہ خدا کی صفت ہے۔ تو یہ مراد نہیں کہ لفظ ’سامِع‘ کو خدا کی صفت قرار دیا گیا  بلکہ سامع کو تو عربی کا ایک لفظ قرار دیا گیا ہے اور اس کے معنی ومفہوم کو خدا تعالیٰ کی صفات میں سے بتایا گیا۔ لہذا ’سننے والا ‘خداکی صفت ہے جس پر اس کا پیار نام ’السمیع‘ دلالت کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح ’نگاہ رکھنے والا‘خدا کی صفت ہے جس پر اس کے اسمائے مبارکہ الرقیب یا البصیر وغیرہ دلالت کرتے ہیں۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ’کالو ‘ اور ’کالا‘ کیسے عربی کے الفاظ ہیں ؟  تو اس کے متعلق بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خواب میں دکھائے جانے والے ایک شخص کا نام تھا۔ اور خواب میں کیا لفظ کس بات پر دلالت کرتاہے اور کس مفہوم کو بیان کرتا ہےیہ بات تو صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو خدا کی طرف سے تعبیر الرؤیا کے علم میں سے حصہ عطا کیا گیا ہو۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رؤیا میں دکھائے جانے والے ایک اشارہ کو عربی زبان کا ایک لفظ سمجھتے ہوئے اس کی تعبیر فرمائی جس کو عرش کے خدا نے سچ کر دکھایا تو اس کے بعد اس روایت کے الفاظ کو تروڑ مروڑ کراعتراضات نکالنا کیسی ناانصافی ہے۔ کیا کوئی مولوی صاحب جواب دے سکتے ہیں کہ اگر یہ تعبیر جھوٹی تھی یا تعبیر کرنے والا خدا کے نزدیک جھوٹا تھا تو کیوں خدا تعالیٰ نے اس کی بتائی ہوئی تعبیر کو منّ وعن پورا کر دیا ؟

خواب میں دیکھے ہوئے کسی امر کی غیر معمولی تشریح کر دینا علماء کے نزدیک قطعاً اچنبھے کی بات نہیں لہذااس سارے معاملہ میں  غور طلب  بات یہ نہیں کہ ہم کالو یا کالا کے الفاظ کو عربی زبان میں تلاش کریں ۔غور طلب امر تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیان فرمودہ تعبیر کو اعجازی رنگ میں پورا کر دیا۔ تاہم اگر یہ ضد ہو کہ ضرور عربی دکھائی جائےتو اس صورت میں عرض ہےکہ ایک زبان کے الفاظ جب کسی دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہیں تو ان الفاظ کا بعینہ اصل صورت میں قائم رہنا ناممکن ہوتا ہےاور اس اصول سے لسانیات کے ماہرین خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر عربی زبان کے الفاظ پر غور کیا جائے توعربی میں ایک مادہ ایسا ہے کہ جس کا مفہوم نگرانی اور حفاظت کرنے کا ہے اور اس کے ساتھ ’کالو ‘ اور ’کالا‘کے الفاظ کی صوتی مشابہت بھی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے۔چنانچہ عربی میں  كَلَأَ يَكلَأ،كَلْئًا وكِلاءً وكِلاءَةً بطور فعل استعمال ہو تواس کا مطلب عربی لغات یہ بتاتی ہیں  کہ حَرَسَ وحَفِظَ یعنی اس نے نگرانی کی اور حفاظت کی۔ پھراگر عربی میں یہ کہا جائے كلأَ اللهُ العبادَ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حفِظهم ورعاهم وحَرَسهم یعنی اللہ نے بندوں کی حفاظت کی اور ان کا خیال رکھا اور نگہبانی کی۔ اور قرآن مجید میں بھی ’كَلَأَ‘ کا فعل خدا تعالیٰ نے استعمال فرمایا ہے۔ چنانچہ سورۃ انبیاء میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے :

قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَنِ32

اس قرآنی آیت کا ترجمہ معترضین حضرات کے امام احمد رضا خان بریلوی  یوں کرتے ہیں:’’تم فرماؤ شبانہ روز تمہاری کون نگہبانی کرتا ہے رحمٰن سے‘‘

پھر اگر لغات کا مزید مطالعہ کریں تو اسی مادہ سے باب مفاعلہ ’كالأَ‘بنے گا۔اور لسان العرب  كالأَ کا مطلب بتاتی ہے ’رَاقَبَ‘ یعنی  اس نے نگاہ رکھی اور نگرانی کی۔ باب مفاعلہ میں كالأَه  کو کَالَاہ پڑھنا بالکل جائز ہے۔ یعنی اس نے اس پر نگاہ رکھی اور نگرانی کی۔ پھرلغات کے مطابق كَلُوءٌ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس پر نیند غالب نہیں آتی  اور وہ مسلسل نگاہ رکھتا ہے۔ عین ممکن ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے كالأَیا كَلُوءٌ جیسے الفاظ ہی لکھے ہوں جن کو مفتی صاحب نے اردو رسم الخط کی وجہ سے کالو یا کالا پڑھ لیا۔

مختصراً یہ کہ  جب ’كلأَ‘ کا فعل عربی زبان میں نگرانی ،نگہبانی اور حفاظت کرنے کے معنوں میں مستعمل ہے تو کیا عجب عربی زبان کے اسی مادہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اردو میں کالا یا کالو کے الفاظ سے کیا اور اس عربی مادہ کے معنی کو مدّنظر رکھتے ہوئے مفتی صاحبؓ کے خواب کی تعبیر فرمائی جس کو خدا نے سچ کر دکھایا۔

اختتامیہ:

گزشتہ تمام بحث سے ہم مندرجہ ذیل امور ثابت کر چکے ہیں کہ :

  • جماعت احمدیہ خدائے واحد کے علاوہ کسی اور خدا کی عبادت و پرستش نہیں کرتی ۔اور خدا کو اپنی ذات و صفات میں واحد اور لاشریک سمجھتی ہے۔اسی خدا نے اپنا ایک پاک نام ’یَلاَ ش‘یعنی ’یا لا شریک ‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سکھایا ۔یہ نام اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ایک انتہائی پیارا نام ہے۔
  • حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا کی طرف سے اس نام کا علم دیا جانا کسی بھی لحاظ سے دین اسلام اور شریعت کے اصولوں کے خلاف نہیں کیونکہ حضرت نبی کریم ﷺ کی ایک پاک حدیث جس کو بے شمار علماء نےصحیح تسلیم کر کے اس سے استدلال کیا ہے یہ بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اسماء کا علم اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
  • خداتعالیٰ کے پاک ناموں کی تعداد محدود نہیں ہےاور کوئی انسان اپنے محدود علم کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے خدا تعالیٰ کے تمام اسماء یا صفات کا مکمل علم حاصل کر لیا ہے۔
  • جن احادیث میں خدا تعالیٰ کے اسماء کی تعداد ننانوے بتائی گئی ہے ان کا مطلب علماء سلف کے اتفاق سے یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے لا تعداد ناموں میں سے جو کوئی ننانوے یاد کرے گا اور ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھتے ہوئے خدا کو یاد کرے گا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
  • اکثر علمائے سلف کے نزدیک ننانوے ناموں کی تعیین کرنے والی روایات میں موجود اختلاف اور بعض دوسری شہادتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان ناموں کی تعیین حضرت نبی کریم ﷺ کی طرف سے نہیں بلکہ کسی راوی کی طرف سے کیا جانے والا اضافہ ہے ۔ یہ امر بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بے شمار اسماء ان ننانوے کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں۔
  • جن احادیث میں خدا تعالیٰ کے ننانوے ناموں کی تعیین کی گئی ہے ان احادیث کے متعلق درست رائے یہ ہےکہ یہ احادیث خدا تعالیٰ کے تمام اسماء کو شمار نہیں کرتیں کیونکہ قرآن و حدیث میں واضح طور پر مذکور کئی اسمائے باری تعالیٰ ان روایات میں شامل ہی نہیں ہیں ۔دراصل یہ احادیث خدا تعالیٰ کے بے شمار ناموں میں سےصرف  ننانوے کو شمار کرتی ہیں اور خدا کے پاک نام تو ان ننانوے کے علاوہ بھی بہت سے ہیں ۔
  • ’کالا‘ یا ’کالو‘ ہرگز خدا تعالیٰ کے اسماء نہیں ہیں بلکہ خدا کی ایک صفت ’نگاہ رکھنے والا‘ ہے ۔ اس صفت کی طرف خدا تعالیٰ کے کئی مبارک اسماء اشارہ کرتے ہیں جس طرح البصیر یا الرقیب جیسے  اسماء کا یہی مفہوم ہے۔

لہذا ثابت ہوا کہ اعتراض کرنے والے علماء کے پاس ’یلاش‘ کے مبارک الہامی نام پر اعتراض کرنے کے لئے کوئی بھی بنیاد نہیں اور نہ ہی کالا یا کالو نام کے کوئی اور خدا جماعت احمدیہ نے بنا لئے ہیں۔ یہ الزام بھی بالکل باطل ہے کہ  جماعت احمدیہ خدائے واحد کے سوا کسی اور خدا کی عبادت کرتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس آخر میں قارئین کی خدمت میں پیش ہے:

’’اس (اللہ)کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی۔ وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے۔ اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے۔۔۔اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد ّ حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمامؔ خوبیوں کا۔ اور جامع ہے تمام طاقتوں کا۔ اور مبدء ہے تمام فیضوں کا۔ اور مرجع ہے ہر ایک شَے کا۔ اور مالک ہے ہر ایک ُ ملک کا۔ اور ّ متصف ہے ہر ایک کمال سے۔ اور ُ منزّہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے۔ اور مخصوص ہے اِس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اُسی کی عبادت کریں۔‘‘33

المراجع و المصادر

  1. تحفہ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 203،204 حاشیہ
  2. الاعراف :۱۸۱
  3. براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ۱،صفحہ ۴۳۶
  4. طٰہٰ: ۹
  5. صحيح مسلم،كتاب الصلاة،باب ما يقال في الركوع والسجود
  6. مسند احمد بن حنبل، مسند عبد اللّٰہ بن مسعودحدیث نمبر ۳۷۱۲
  7. صحيح البخاري، كتاب التوحيد، باب إن لله مائة اسم إلا واحدا
  8. المحلی بالآثار، ابو محمد علی بن حزم الاندلسی، دارالکتب العلمية بیروت، ۲۰۰۳، 1/50
  9. صحیح مسلم بشرح النّووی، مؤسسة قرطبة للنشر ،1994،جزو17،صفحات 7,8
  10. فتح الباري بشرح صحيح البخاري،احمد بن علی بن الحجر العسقلانی، مطبوعہ ریاض، 2001، 11/223
  11. موطأ مالك، كتاب الجامع، باب الشعر، ما يؤمر به من التعوذ
  12. سنن ابن ماجه،كتاب الدعاء،باب اسم الله الأعظم
  13. عمدۃ القاری،بدرالدین محمود العینی، إدارة الطباعة المنيرية،22/14
  14. مجموعةالفتاویٰ، تقی الدین احمد بن تیمية، دارالوفا للطباعة والنشر،2005، 486/22
  15. مجموعةالفتاویٰ، تقی الدین احمد بن تیمية، دارالوفا للطباعة والنشر،2005،381/6
  16. بدائع الفوائد،ابن قیم الجوزية، دار عالم الفوائد للنشر،295/1
  17. سنن الترمذي، كتاب الدعوات ،باب ما جاء في عقد التسبيح باليد
  18. المستدرك على الصحيحين،كتاب الإيمان، إن لله تسعة وتسعين اسما من أحصاها دخل الجنة
  19. فتح الباري بشرح صحيح البخاري،احمد بن علی بن الحجر العسقلانی، مطبوعہ ریاض، 2001، 11/219
  20. فتح الباري بشرح صحيح البخاري،احمد بن علی بن الحجر العسقلانی، مطبوعہ ریاض، 2001، 11/220
  21. الاسماء والصفات،احمد بن الحسین البیہقی، المکتبۃ الازھریۃ للتراث، 18
  22. فتح الباري بشرح صحيح البخاري،احمد بن علی بن الحجر العسقلانی، مطبوعہ ریاض، 2001، 11/220
  23. فتح الباري بشرح صحيح البخاري،احمد بن علی بن الحجر العسقلانی، مطبوعہ ریاض، 2001، 11/218
  24. التلخيص الحبير،احمد بن علی بن الحجر العسقلانی، مؤسسة قرطبة،1995، 319/4
  25. المحلّیٰ بالآثار، ابو محمد علی بن حزم الاندلسی، دارالکتب العلمية بیروت، 2003، 6/282
  26. مجموعةالفتاویٰ، تقی الدین احمد بن تیمية، دارالوفا للطباعة والنشر،2005،22/482
  27. تقی الدین احمد بن تیمية، مجموعةالفتاویٰ، دارالوفا للطباعة والنشر،2005،6/379
  28. صحیح مسلم بشرح النّووی، مؤسسة قرطبة للنشر ،1994،15/152
  29. احمد بن علی بن الحجر العسقلانی، فتح الباري بشرح صحيح البخاري،مطبوعہ ریاض، 2001، 11/223
  30. التفسیر الکبیر، امام فخر الدین رازی، دارالفکر للطباعۃ النشر،22/12
  31. ذکر حبیب ، مفتی محمد صادق ؓ، صفحہ 181
  32. الانبیاء: 43
  33. الوصیت ، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 310

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

حضرت بانی جماعت احمدیہ کی دعوت مقابلہ تفسیر نویسی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کی اصل واقعاتی حقیقت

قارئین کرام!آجکل سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزمنفی مہم میں الزام تراشیوں کا ا…