ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد

لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ
اعتراض نمبر 1 : حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ(بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل جلد اول صفحہ491 مطبوعہ میرٹھ) میں صاف ذکر ہے کہ آنحضور ﷺ کے بعد ہر طرح کی نبوت اب ختم ہوچکی ہے۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول:۔اس حدیث کی دوسری روایت میں اس کی تشریح ہوتی ہے
قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَا عَلِیُّ اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ کَھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّکَ لَسْتَ نَبِیًّا۔(طبقات کبیر لابن سعد جلد3 صفحہ 25 بیروت 1957ء)
یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایاتھاکہ اے علی! کیا تو خوش نہیں کہ تو مجھے ایسا ہی ہے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام۔ مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد تو نبی نہیں ہوگا۔پس آنحضورﷺ نے خود’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘کی تشریح کردی کہ آپ ﷺ کا یہ خطاب عام نہیں تھا بلکہ خاص حضرت علی ؓسے ہے۔
دوم:۔ حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں ’’لَا‘‘ نفی کمال کا ہے
اسی بخاری میں آنحضرت ﷺ کی بعینہٖ ایسی ہی ایک اور حدیث ہے۔:
’’عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِذَاھَلَکَ کِسْرٰی فَلَا کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ‘‘(بخاری کتاب الایمان والنذور باب کیف کانت یمین النبی صلی اﷲ علیہ وسلم )
یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسریٰ مرے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا اور جب یہ قیصر مرے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا ۔
اپنے متعلق ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ اور قیصر کے متعلق ’’لَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ‘‘ فرمایا ۔ کیا قیصر کے بعد کوئی نہیں ہوا ؟اگر ہوئے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ ہوتے رہے ہیں تو پھر حدیث لَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس قیصرکے بعد آئندہ آنے والے قیصراس شان کے قیصر نہ ہوں ۔ امام حافظ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں فرماتے ہیں:
’’مَعْنَاہُ فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ یَمْلِکُ مِثْلَ مَا یَمْلِکُ ھُوَ۔‘‘( فتح الباری شرح صحیح بخاری از امام حافظ ابن حجر عسقلانی کتاب المناقب دار نشر الکتب الاسلامیہ لاہور جلد 6)
یعنی: جب یہ قیصر مر جائے گا توا س کے بعد کوئی ایسا قیصر نہ ہوگا جو اس طرح حکومت کرے جس طرح یہ کرتا ہے۔ تولَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کا مطلب بھی یوں ہوگا کہ آپﷺ جیسا نبی آپ کے بعد نہیں ہوگا ۔
اسی طرح ایک مشہور محاورہ ہے کہ ’’لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَارِ‘‘ (موضوعات کبیر از ملَّا علی قاری صفحہ 59، 81)
کیا حضرت علی ؓ کے بعد کوئی جوان نہیں ہوا ؟ اور کیا ذوالفقار کے بعد کوئی تلوار نہیں بنی؟ پس اس میں حضرت علی ؓجیسے جوان کی اور ذوالفقار جیسی تلوارکی نفی ہے ۔ مطلق نفی نہیں ۔ پس ’’لَا‘‘ نفی جنس کا نہیں ۔ بلکہ ’’لَا‘‘ نفی کمال کا ہے ۔
اس بات کی تائید میں حضرت اما م رازی رحمۃ اﷲ علیہ حدیث لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ (بخاری ۔ کتاب المناقب مناقب انصار باب ہجرۃ النبی ؐ و اصحابہٗ الی المدینۃ )کی تشریح میں فرماتے ہیں :
وَاَمَّا قَوْلُہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ فَالْمُرَادُ اَلْھِجْرَۃُ الْمَخْصُوْصَۃُ (تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 580 مطبوعہ مصر زیر آیات اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ ۔ سورۃ الانفال:73)
یعنی حضور ؐ کے ارشاد ’’لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ فتح مکہ کے بعد ہر قسم کی ہجرت بند ہوگئی بلکہ صرف ایک خاص ہجر ت مراد ہے جو مکہ سے مدینہ کی طرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوتی تھی۔ اس بات کی دلیل درج ذیل حدیث سے بھی ملتی ہے جس میں آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہجرت کا سلسلہ اور اس کے فیوض و برکات قیامت تک اس امت کے لوگوں کو ملتے رہیں گے۔ جیسا کہ فرمایا:
عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ حَتَّى تَنْقَطِعَ التَّوْبَةُ، وَلَا تَنْقَطِعُ التَّوْبَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا» (سنن ابو داؤد، كِتَاب الْجِهَادِ، بَابٌ فِي الْهِجْرَةِ هَلِ انْقَطَعَتْ؟)
پس بعینہٖ اسی طرح ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ میں بھی ہر قسم کی نبوت مراد نہیں بلکہ صرف ایک مخصوص نبوۃ کا انقطاع مراد ہے جو شریعت جدیدہ کی حامل ہو اور جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر ے ۔ نیز براہ راست ہو ۔
پس حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں ’’لَا‘‘ نفی کمال کا ہے نہ کہ ’’لَا‘‘ نفی جنس کا۔ اگر لانفی جنس مراد لیں اور یہ ترجمہ کریں کہ ہرطرح کا نبی اب دنیا میں نہیں آئے گا تو یہ بات قرآن و حدیث کے مخالف ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺامتی نبوت کے جاری ہونے کا امکان پیش کرتی ہیں۔
سوم:۔ حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں لفظ ’’بعد‘‘ سے مراد میری مخالفت کے ہیں۔ یعنی مجھے چھوڑ کر یا میرے خلاف ہوکر کوئی نبی نہیں آسکتا۔
قرآن مجید میں لفظ ’’بعد‘‘ مغا ئرت اور مخالفت کے معنو ں میں بھی مستعمل ہوا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ (سورۃ الجاثیۃ:7) یعنی اﷲ اور اس کی آیات کے بعد کونسی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟
یہاں اﷲ کے بعدسےکیا مطلب ہے ؟ کیا اﷲ کے فوت ہونے کے بعد ؟ یا اﷲ کی غیر حاضری میں ؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں معنیٰ باطل ہیں۔ پس ’’بعد اﷲ‘‘ کا مطلب یہی ہوگا کہ اﷲ کے خلاف اوراﷲ کو چھوڑ کر ۔ پس حدیث لا بنی بعدی کا مطلب ہے کہ میرے خلاف رہ کر کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
فَاَوَّلْتُھُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ اَحَدُھُمَا اَسْوَدُ الْعَنْسِیُّ وَالْاٰخَرُ مُسَیْلَمَۃُ(بخاری کتاب المغازی باب وفدنبی حنیفہ حدیث ابن عباس بر روایت ابوہریرہ جلد3صفحہ نمبر49 مصری )
یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خواب میں میں نے سونے کے جو دوکنگن دیکھے اور ان کو پھُونک ماراکر اُڑایا۔تواس کی تعبیرمَیں نے یہ کی کہ اس سے مراد دوکذاب ہیں جومیرے بعد نکلیں گے ۔پہلا اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ ہے اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ فرمایا ہے کہ وہ دونوں کذاب میرے بعد نکلیں گے یہاں ’’بعد‘‘ سے مراد غیر حاضری یا ’’وفات‘‘ نہیں بلکہ’’مخالفت ‘‘ ہے کیونکہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی دونوں آنحضرت ﷺ ہی کی زندگی میں مدعی نبوت ہو کر آنحضرت ﷺ کے بالمقا بل کھڑے ہوگئے تھے چنانچہ بخاری میں آنحضرت ﷺ کی دوسری حدیث درج ہے :
’’فَاَوَّلْتُھُمَا الْکَذَّابَیْنِ اَنَا بَیْنَھُمَا صَاحِبُ صَنْعَاءَ وَ صَاحِبُ الْیَمَامَۃ‘‘(بخاری کتاب التعبیر الرؤیا۔باب النفخ فی المنام وکتاب المغازی باب وفدبنی حنیفہ)
پس میں نے اس سے دو کذاب مراد لی ۔ میں اس وقت جن کے درمیان ہوں یعنی اسود عنسی اور مسیلمۃ الیمامی۔پس ’’اَنَا بَیْنَھُمَا‘‘صاف طور پر بتاتاہے کہ دوسری روایت میں یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ میں ’’بعدی ‘‘ سے مراد میرے مدمقابل اور میرے مخالف ہی ہے نہ کہ وفات یا غیر حاضری ۔پس لا نبی بعدی میں بھی ’’بعدی‘‘سے مراد ہے کہ میرے مدمقابل اور مخالف ہو کر کوئی نبی نہیں آسکتا ۔
چہارم:۔ حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کی تشریح ازائمۂ اسلام و بزرگان سلف
حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کی تشریح کرتے ہوئے بزرگان سلف نے اس کے ہرگز یہ معنیٰ نہیں کئے کہ کسی قسم کا کوئی نبی آنحضورﷺ کے بعد اب دنیا میں نہیں آسکتا۔ بلکہ وہ اس بات کے دعویدار ہیں کہ کوئی ایسا نبی اب نہیں آئے گا جو آنحضور ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ ﷺ کی غلامی سے آزاد ہو۔ البتہ آپﷺ کی ظلیت میں، آپﷺ کی اتباع سے اورآپﷺ کی غلامی میں نبی آسکتا ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقوال بزرگان سلف ملاحظہ ہوں:
اول: اس حدیث کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے لئے حضرت عالٔشہؓ کا درج ذیل قول ہر صاحب عقل و فہم کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ آپؓ نے فرمایا:
’’قُوْلُوْا اَنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَآءِ وَ لَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ ‘‘ (در منشور جلد5صفحہ 204و تکملہ مجمع البحارالانوار صفحہ85)
یعنی یہ تو کہو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپ ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کے اس قول کے وضاحت کرتے ہوئے لغت کی کتاب تکملہ مجمع البحار الا نوار میں اس کے مصنف امام محمد طاہر فرماتے ہیں:
’’وَھٰذَااَیْضًا لَا یُنَافِیْ حَدِیْثَ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ لِاَ نَّہٗ اَرَادَ لَا نَبِیَّ یَنْسَخُ شَرْعَہٗ‘‘(تکملہ مجمع البحارالانوار صفحہ85از امام محمد طاہر گجراتی)
یعنی : یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے مخالف نہیں ہے کیونکہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ سے مراد تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کر ے۔
دوم: حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:
وَ ھٰذَا مَعْنٰی قَوْلِہٖ ﷺ اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَ لَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذْ کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ۔ (فتو حات مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد2 صفحہ 3مصری مطبوعہ دارلکتب العربیہ الکبر یٰ)
یعنی یہی معنیٰ ہیں حدیث’’ اَنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ‘‘ اور ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ کے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کو ئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو معبوث ہوکر آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شر یعت کے خلاف کسی اور شریعت پر عمل کرتا ہو۔ہاں اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کے حکم کے ماتحت ہوکر آئے تو پھر نبی ہو سکتا ہے۔
سوم: اسی طرح حضرت امام عبدالوہاب شعرانی اپنی کتاب الیواقیت وا لجواہر میں فرماتے ہیں:
’’قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ الْمُرَادُ بِہٖ مُشْرِعَ بَعْدِیْ‘‘(الیواقیت وا لجواھر جلد2صفحہ 24از عبدالوہاب الشعرانی)
یعنی آنحضرت ﷺ کایہ فرمانا کہ ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد صاحب شریعت کو ئی نبی نہ ہوگا۔
چہارم: نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں:
’’حدیث لَا وَحْیَ بَعْدَ مَوْتِیْ بے اصل ہے ۔ہاں ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘آیا ہے جس کے معنیٰ اہل علم کے نزدیک یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔‘‘(اقتراب السا عۃ از نواب نورالحسن خان صفحہ162 مطبع مفیدعام الکائنہ فی الرواۃ 1301ھ)
(اس بارہ میں مزیدحوالہ جات دیکھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

اِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ
اعتراض نمبر 2 : حدیث میں آیا ہے کہ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَآءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ اِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ (بخاری کتاب المناقب باب ذکر عن بنی اسرائیل) یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے ۔ جب ایک نبی فوت ہوتا تھا تو اس کا جانشین بھی نبی ہوا کرتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور ضرور میرے بعد خلفاء آئیں گے۔ اس حدیث میں آنحضور ﷺ نے واضح فرمادیا ہے کہ میرے بعد سلسلۂ نبوت بند ہوجائے گا اور خلافت کا قیام ہوگا جیسا کہ خلفائے راشدین کے ذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: اس حدیث کے الفاظ کا صحیح ترجمہ یہ ہے:
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کے( کچھ) انبیاء سیاست کرتے رہے ۔ جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو ایک نبی اس کا جانشین ہوتا اور یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور عنقریب خلفاء ہوں گے ۔‘‘
کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَآءُ کا ترجمہ لکھا ہے ۔’’بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے ‘‘ جبکہ صحیح ترجمہ محض قیادت نہیں بلکہ ’’سیاست والی قیادت ‘‘ہے کیونکہ لفظ تَسُوْسُھُمُ استعمال ہوا ہے۔ پس یہ مذکور انبیاء صاحبِ سیاست تھے۔ ویسے بنی اسرائیل میں بہت سے ایسے نبی بھی گزرے ہیں جو صاحبِ سیاست نہ تھے۔ جیسے مثلاً حضرت زکریا،حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ۔ اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے لانبی بعدی کے الفاظ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَآءُکے سیاق میں ان معنوں میں فرمائے ہیں کہ میرے بعد کوئی صاحبِ سیاست نبی نہیں ہوگا ۔ بلکہ قریب زمانہ میں صاحبِ سیاست خلفاء ہوں گے ۔
دوم: اس حدیث میں آپ ﷺ کے فوراً بعد ایسی خلافت کے قیام کی بشارت ہے جو مقام نبوت پر فائز نہیں ہوگی۔
سَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ کے الفاظ جو حدیث میں آئے ہیں صاف بتا رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے بعد قریب کا زمانہ مراد لیا ہے۔ جیسا کہ لفظ ’’س‘‘ سے ظاہر ہے جو مستقبل قریب کے لئے آتا ہے ۔یعنی میرے معاً بعد خلفاء ہوں گے اور معاً بعد نبی کوئی نہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔اس حدیث سے ہمیشہ کے لئے امتی نبوت کی نفی پر استدلال درست نہیں۔
سوم: یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بادشاہت اور نبوت جمع نہیں ہوگی۔ (مشکوٰۃ کتاب الرقاق باب الا نذار والتحذیر ) چنانچہ دیکھ لیں۔حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ بادشاہ (خلیفے) تو ہوئے مگر نبی نہ تھے اور جونبی ہوا (یعنی مسیح موعود ؑ) وہ بادشاہ نہ ہوا۔
چہارم: آنے والا نبی بھی ہوگا اور خلیفہ بھی۔
اس حدیث میں سَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ کے الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عنقریب غیر نبی خلفاء ہونے والے تھے مگر مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی بھی قرار دیا ہے اور اپنا خلیفہ بھی۔ چنانچہ طبرانی کی حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا» إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ، أَلَا انہ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي۔
(المعجم الصغیر للطبرانی جزء اول۔ صفحہ257۔ بیروت لبنان)
یعنی : سُن لو ! مسیح موعود ؑ اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور سُن لو کہ وہ میری اُمّت میں میرے بعد میرا خلیفہ ہے۔
پنجم: یہ حدیث صرف آنحضرت ﷺ اورحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے درمیانی زمانہ کے لئے ہے
کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ یَعْنِیْ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیٌّ وَاِنَّہٗ نَازِلٌ۔‘‘ (ابو دؤد کتاب الملا حم باب خروج الدجال )
یعنی میرے اور آنے والے مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوگا۔
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

آنحضرت ﷺ کی آمد کے بعد نبوت کا محل مکمل ہوچکا
اعتراض نمبر 3: آنحضرت ﷺ کی آمد کے بعد نبوت کا محل مکمل ہوچکا۔ اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:مَثَلِی وَمَثَلُ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَأَحْسَنَہُ وَأَجْمَلَہُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ مِن زَاوِیَۃٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہِ وَیَعْجَبُونَ لَہ وَیَقُولُونَ: ھَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ؟ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَۃُ ۔أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ۔ (بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبیین )
ترجمہ: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا اور اُس کو بہت آراستہ پیراستہ کیا مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ لوگ اُسے دیکھنے آتے اور خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی۔ آپ ؐ نے فرمایا میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔
پس اب کسی نئی اینٹ کے لئے نبوت کے اس محل میں جگہ نہیں ہے۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: اس حدیث کے بعض راویوں کے بارہ میں بزرگان امت کی رائے ہے کہ وہ ضعیف ہیں۔
یہ روایت قابل استناد نہیں کیونکہ بلحاظ روایت ضعیف ہے۔یہ دو طریقوں سے مروی ہے ۔پہلے طریقہ میں زہیر بن محمد تمیمی ضعیف ہے ۔اس کے متعلق لکھا ہے :
’’قال معاویۃ عن یحیٰ ضعیف وذکرہٗ ابو ذرعۃفی اسامی الضعفاء قال عثمان الدارمی لہ اغالیط کثیرۃ قال النسائی ضعیف وفی موضع اٰخر ولیس بالقوی‘‘(تہذیب التہذیب جلد3 صفحہ 301 زیر نام زھیر بن محمد تمیمی طبع عبد التواب اکیڈمی ملتان)
یعنی ۔امام یحیٰ کے نزدیک اور ابو ذرعہ کے نزدیک زہیر تمیمی ضعیف ہے ۔عثمان الدارمی کہتے ہیں کہ اس کی غلط روایات کثرت سے ہیں ۔امام نسائی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے دوسرے طریقہ میں عبد اللہ بن دینار ،مولیٰ عمر،اور ابو صالح الخوزی ضعیف ہیں ۔عبد اللہ بن دینار کی روایت کو عُقیلی نے مخدوش قرار دیا ہے ۔(تہذیب التہذیب جلد5 صفحہ 177طبع عبد التواب اکیڈمی ملتان)اور ابو صالح الخوزی کو ابن معین ضعیف قرار دیتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد12 صفحہ 145طبع عبد التواب اکیڈمی ملتان ومیزان الاعتدال جلد3 صفحہ 365مطبع حیدر آباد)
دوم: اس حدیث میں شریعت کی تکمیل اورمدارج و کمالات نبوت کی تکمیل کا ذکر ہے
اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس حدیث میں شریعت کے محل کا ذکر ہے جس کو نبی تعمیر کرتے ہیں۔ انبیاء سابقین اپنے اپنے وقت میں ضرورت کے مطابق احکام شریعت لاتے رہے اور اس محل کی تیاری ہوتی رہی۔ آنحضور ﷺ نے آکر پہلی شریعتوں کو بھی قرآن شریف میں شامل کرلیا اور جو کمی باقی تھی اس کو بھی پورا کر کے شریعت کے محل کو مکمل کر دیا ۔قرآن مجید میں ہے’’فیھا کتب قیمۃ‘‘ (سورۃ البینۃ:4) گویا اس میں سب پہلی شریعتیں بھی شامل ہیں۔
بخاری کی حدیث تو پیش کی جاتی ہے اور بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ یہ بخاری کی حدیث ہے لیکن بخاری کی شرح کی درج ذیل عبارت چھپا لی جاتی ہے۔ وہ کیوں ساتھ پیش نہیں کی جاتی جس میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ محل والی اس حدیث کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں:
اَلْمُرَادُ ھُنَا النَّظْرُ اِلَی الْاَکْمَلِ بِالنِّسْبَۃِ اِلَی الشَّرِیْعَۃِ الْمُحَمَّدِ یَّۃِ مَعَ مَا مَضٰی مِنَ الشَّرَائِع الْکَامِلَۃِ۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 2 صفحہ380)
ترجمہ : مراد اس تکمیل عمارت سے یہ ہے کہ شریعت محمدیہ ﷺ پہلے گزری ہوئی کامل شریعتوں کی نسبت ایک اکمل شریعت ہے ۔
یعنی حضرت امام ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس حدیث سے شریعت کا کمال مراد لیا ہے جبکہ حضرت علامہ ابن خلدون اس حدیث کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ محل کی تکمیل سے مراد آنحضورﷺ کے ذریعہ نبوت کے کمالات اور مدارج کی تکمیل ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
یفسرون خاتم النبیین باللبنۃ حتی اکملت البنیان ومعناہ النبی الذی حصلت لہ النبوۃ الکاملۃ ( مقدمہ ابن خلدون جلد اول صفحہ271مصر مطبعۃ الازہریہ1348ھ)
یعنی لوگ ختم النبیین کی تفسیر اس اینٹ سے کرتے ہیں کہ جس سے عمارت مکمل ہو گئی لیکن اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ نبی جس کے لئے نبوت کاملہ حاصل کی گئی وہ ہمارے نبی کریم ﷺ ہیں۔
گویا علامہ ابن خلدون زمانی لحاظ سے آخریت کا ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں اس سے مراد صرف اتنی ہے کہ وہ نبی آگیا جس کے ذریعہ نبوت کامل ہوئی اس سے زیادہ اس حدیث کا کوئی معنی نہیں ہے ۔
پس اگر اس حدیث کے ظاہری معنیٰ کو لیں تو گویا آنحضرت ﷺ تشریف نہ لاتے تو نبوت کے محل میں صرف ایک ہی اینٹ کی تھوڑی سی جگہ خالی رہ جاتی تھی۔ جیسے ایک بہت بڑے محل میں ایک معمولی سوراخ ۔یہ تصور شان محمدی ﷺ کو کم کرتی ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لو لاک لما خلقت الافلاک۔ اگر آپ نہ ہوتے تو میں تمام جہانوں کو پیدا ہی نہ کرتا ۔ پس نبوت کے کمالات کی تکمیل اور شریعت کے کامل اور مکمل اور اکمل ہونا آنحضورﷺ کے شایان شان ہے۔
سوم: اس حدیث کا اطلاق آنحضور ﷺ کے اپنے ارشاد کے مطابق انبیائے سابقہ پر ہے
واضح رہے کہ اس حدیث میں مَثَلِی وَمَثَلُ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال صرف پہلے گزرے ہوئے انبیاء سے دی ہے جو تشریعی یامستقل نبی تھے۔ بلاشبہ نبوت تشریعیہ یا نبوت مستقلہ کی عمارت حضرت آدمؑ سے شروع ہوئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی تکمیل ہوگئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آنے والا امتی نبی اس جگہ زیر بحث نہیں آ سکتا کیونکہ مسیح موعودؑ کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی بھی قرار دیا ہے اور امتی بھی۔ جیسا کہ فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا» إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ، أَلَا انہ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي۔(المعجم الصغیر للطبرانی جزء اول۔ صفحہ257۔ بیروت لبنان)
یعنی : سُن لو ! مسیح موعود ؑ اور میرے درمیان کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں ہے اور سُن لو کہ وہ میری اُمّت میں میرے بعد میرا خلیفہ ہے۔
چہارم: اس حدیث سے ہرقسم کی نبوت کا دروازہ بند کرنے والوں سےایک سوال
اب جبکہ عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو وہ اینٹ کہاں لگے گی؟ جہاں سے ان کے لیے گنجائش نکالو گے وہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے بھی گنجائش ہو گی۔ اگر کہو کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں تو گویا معلوم ہو ا کہ عیسیٰ علیہ السلام والی اینٹ نہیں لگی۔ پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرمانا چاہئے تھا کہ دو اینٹوں کی جگہ باقی ہے۔ ایک میں اور ایک عیسیٰ بن مریم۔
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

آنحضورﷺ کی فضلیت۔ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ
اعتراض نمبر 4: آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے: ان رسول اللّٰہ قال فضلت علی الانبیاء بستٍ اعطیت جوامع الکلم نصرت بالرعب احلت لی الغنائم وجعلت لی الارض مسجداً وطھورًا وارسلت الی الخلق کآفۃ ً وخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ۔(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب المساجد و مواضع الصلاۃ)
یعنی رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میں چھ باتوں میں تمام نبیوں پر فضیلت دیا گیا ہوں ۔مجھے جوامع الکلم دیئے گئے ۔رعب سے میری نصرت کی گئی۔غنیمتیں میرے لئے حلال کی گئیں ۔اور تمام زمین میرے لئے مسجد اور بذریعہ تیمم پاک کرنے والی بنائی گئی۔ اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں۔اور میں تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں یعنی میں آخری نبی ہوں۔ پس آنحضور ﷺ نے اپنی چھٹی فضلیت یہ بیان کی کہ میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول:لفظ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ کا ترجمہ وہ کیا جائے جس سے آنحضورﷺ کی فضیلت ثابت ہو
مذکورہ بالا اس حدیث میں حضورﷺنے فرمایا ہے کہ فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِیَاءِ بِسَتٍّ۔ یعنی مجھے سب نبیوں پر چھ فضیلتیں حاصل ہیں جن میں سب سے بڑی اور آخری فضیلت یہ ہے خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ کہ مجھے خاتم النبیین بنایا گیا ہے ۔
پس جب یہ طے ہوگیا کہ خاتم النبیین آنحضرت ﷺکی امتیازی فضیلت ہے تو اس کے معنوں کی تعیین کرتے وقت یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسے معنیٰ کئے جاویں جن سے آنحضرت ﷺ کی افضلیت ثابت ہو ۔ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ بتائیں کہ محض زمانے کے لحاظ سے پیچھے آنے اور آخری ہونے میں کیا وجہ فضیلت ہے؟ کیا دوڑ کے مقابلے میں سب سے پیچھے آنے والا کبھی قابل تحسین ہوسکتا ہے؟
دوم: لفظ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ سے مراد نبوت کےمدارج و کمالات کی تکمیل ہے
لفظ خُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ سے مراد نبوت کےمدارج و کمالات کی تکمیل ہے۔ اس بارہ میں حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد الحسن الحکیم الترمذی(متوفی308ھ)فرماتے ہیں:
ومعناء عندناان النبوۃ تمت باجمعھا لمحمدﷺفجعل قلبہ بکمال النبوۃوعاء علیھا ثم ختم۔ (کتاب ختم الاولیاء ص341بیروت المطبعۃ الکاثولیکیہ)
ترجمہ:۔ہمارے نزدیک خاتم النبیین کے یہ معنیٰ ہیں کہ نبوت اپنے جملہ کمالات اور پوری شان کے ساتھ محمد ﷺمیں جمع ہو گئی ہے سو خدا تعالیٰ نے آپ کے قلب مبارک کو کمال نبوت کے جمع کرنے کے لئے بطور برتن قرار دے دیا ہے اور اس پر مہر لگا دی ہے۔
حضرت مولانا روم علیہ الرحمۃ(متوفی672ھ) لکھتے ہیں:
بہر این خاتم شد است او کہ بجود مثل او نے بود نے خواہند بود
چونکہ در صنعت برد استاد دست تو نہ گوئی ختم صنعت بر تو است
(مثنوی مولانا روم ؒدفتر ششم صفحہ18،19)
حضرت مولانا روم کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺاس وجہ سے خاتم ہیں کہ سخاوت یعنی فیض پہنچانے میں نہ آپ جیسا کوئی ہوا ہے نہ ہوگا۔ جب کوئی کاریگر اپنی صنعت میں کمال پرپہنچے تواے مخاطب !کیا تو یہ نہیں کہتا کہ تجھ پر کاریگری ختم ہے۔
سوم: آنحضورﷺ کے ذریعہ شریعت اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے
حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ محدث دہلوی اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:
خُتِمَ بِہٖ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ مَنْ یَّأمُرُہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِالتَّشْرِیْعِ اِلَی النَّاسِ۔ (تفہیمات الٰہیہ تفہیم نمبر54ص85 شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد سندھ)
ترجمہ: خُتِمَ بِہٖ النَّبِیُّوْنَ سے یہ مراد ہے کہ آئندہ کوئی ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے خدا نئی شریعت دے کر لوگوں پر مامور کرے۔ یعنی آنحضور ﷺ کے ذریعہ شریعت اپنے کمال کو پہنچی ۔ پس یہ بات آنحضورﷺ کی شان کو بڑھانے والی بات ہے۔
(خاتم النبیین کی آیت اور لفظ ختم نبوت کے بارہ میں مزید پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ
اعتراض نمبر 5: آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَ لَا نَبِیَّ۔ (ترمذی کتاب الرؤیا باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات، مسند احمد مسندالمکثرین من الصحابہ مسند انس بن مالک)
یعنی رسالت اور نبوت اب منقطع ہوچکی ہے پس اب نہ تو کوئی رسول میرے بعد آئے گا اور نہ کوئی نبی۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: اس حدیث کے بعض راویوں کے بارہ میں بزرگان امت کی رائے ہے کہ وہ ضعیف ہیں۔
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کے چاروں راوی ضعیف ہیں ہےجن میں حسن بن محمدعنبر ،عفان بن مسلم ، عبد الواحد بن زیاد اور المختار بن فلفل شامل ہیں۔ ان تمام راویوں کے بارہ میں بزرگان امت کی درج ذیل رائے ہے:
(1)حسن بن محمدعنبر کے متعلق علامہ ذہبی لکھتے ہیں:
’’ضعفہ ابن قانع وقال الدار قطنی تکلموا فیہ‘‘(میزان الاعتدال زیر نام الحسن بن محمد بن عنبر جلد2ص43 دارلفکر العربی)
یعنی ابن قانع کہتے ہیں کہ حسن بن محمد ضعیف تھا۔ دار قطنی کہتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک اس راوی کی صحت کے بارے میں کلام ہے۔
(2) عفان بن مسلم کے متعلق ابو خثیمہ کہتے ہیں:
’’انکرنا عفان‘‘(میزان الاعتدال زیرنام عفان بن مسلم جلد4ص1۔2 دارالفکر العربی)
یعنی ہم اس راوی کو قابل قبول نہیں سمجھتے۔
(3) عبد الواحد بن زیاد کے متعلق لکھا ہے:
’’قال یحیٰ لیس بشیئٍ‘‘ (میزان الاعتدال جلد2ص472 زیر نام عبد الواحد بن زیاد دارالفکر العربی)
یعنی یحیٰ کہتے ہیں کہ یہ راوی کسی کام کا نہیں ہے۔
(4) مختار بن فلفل کے متعلق لکھا ہے :
’’یخطیء کثیراً تکلم فیہ سلیمان فعدہٗ فی روایات المناکیر عن انسٍ‘‘(تہذیب التہذیب جلد10ص62زیر نام مختار بن فلفل طبعہ عبد التواب اکیڈمی ملتان)
یعنی یہ راوی روایات میں اکثر غلطی کرتا تھا ۔سلیمان نے کہا ہے کہ یہ راوی حضرت انسؓ سے ناقابل قبول روایات بیان کرنے والوں میں سے ہے۔ چنانچہ زیر بحث روایت بھی اس راوی نےحضرت انسؓ سے ہی روایت کی ہے لہٰذا محدثین کے نزدیک یہ روایت قابل انکار ہے اور حجت نہیں۔
دوم: اس حدیث کا حقیقی مفہوم
اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:
’’ان النبوۃالتی انقطعت بوجود رسول اللہ ﷺ انما ھی نبوۃ التشریع لا مقامھا فلا شرع یکون ناسخاً لشرعہ ﷺ ولا یزید فی شرعہ حکماً اٰخر وھذا معنیٰ قولہ ﷺ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ای لانبی ٌ یکون علی شرع ٍ یخالف شرعی بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی‘‘
(فتوحات مکیہ جلد2 ص3مطبع دارالکتب العربیہ مصر)
ترجمہ : ’’وہ نبوت جو آنحضرت ﷺ پر منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت ۔اب آنحضرت ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آسکتی ۔نہ اس میں کوئی حکم کم کر سکتی ہے نہ زیادہ۔ یہی معنی ہیں آنحضرت ﷺ کے اس قول کے ہیں کہ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوگاجو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو ۔بلکہ اگر نبی آ سکتا ہے تو وہ میری شریعت کے ماتحت آئے گا۔ ‘‘
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

اَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ
اعتراض نمبر 6 : حدیث میں آیا ہے: اَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ (ترمذی جلد2 باب فضائل النبی صلی اﷲ علیہ وسلم باب ما جاء فی اسماء رسول اﷲؐ) یعنی آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں عاقب ہوں۔ اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہوتا۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: یہ رو ایت قابل حجت نہیں
کیونکہ اس کا ایک راوی سفیان بن عُیَینَہ ہے جس نے یہ روایت زُہری سے لی ہے ۔ سفیان بن عُیینہ کے متعلق لکھا ہے:
کَانَ یُدَلِّسُ قَالَ اَحْمَدُ یُخْطِیُٔ فِیْ نَحْوِ مِنْ عِشْرِیْنَ حَدِیْثٍ عَنِ الزُّھْرِیْ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعَیْدِ الْقَطَّانُ قَالَ اَشْھَدُ اَنَّ السُّفْیَانَ بْنَ عُیَیْنَۃَ اخْتَلَطَ سَنَۃِ سَبْعٍ وَّ تِسْعِیْنَ وَ مِائَۃٍ فَمَنْ سَمِعَ مِنْہُ فِیْھَا فَسَمَاعُہٗ لَا شَیْیءٌ۔ (میزان الاعتدال جلد اول صفحہ 397 حیدرآباد)
یعنی یہ راوی تدیس کیا کرتا تھا۔ امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ زہری سے بیسیوں روایات میں اس نے غلطی کی ہے ( یہ عاقب والی روایت بھی اس نے زہری ہی سے لی ہے) یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ سفیان بن عُیَینَہ کی سن 197ھ میں عقل ماری گئی تھی۔ پس جس نے اس کے بعد اس سے روایت لی ہے وہ بے حقیقت ہے۔
اس روایت کے دوسرے راوی زہری کے متعلق لکھا ہے:
’’کَانَ یُدَلِّسُ فِی النَّادِرِ‘‘ ( میزان الاعتدال زیرلفظ ہری و انوار محمدی جلد2 صفحہ 448)
یعنی یہ راوی کبھی کبھی تدیس بھی کرلیا کرتاتھا۔ پس اس روایت میں بھی اسی راوی نے از راہ تدیس وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ کے الفاظ بڑھا دیئےہیں کیو نکہ شمائل ترمذی شریف میں مجتبائی میں جہاں یہ حدیث ہے وہاں ’’وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ‘‘کے الفاظ کے اوپر بین السطور میں لکھا ہے:
’’ھٰذَاقَوْلُ الزَّھْرِیُّ‘‘
یعنی یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کاقول نہیں بلکہ علامہ زہری کا اپنا قول ہے۔ (شمائل ترمذی مجتبائی مطبوعہ 1342ھ صفحہ26باب ما جاء فی اسماء رسول اﷲؐ)
دوم: ایک عقلی دلیل
’’عاقب‘‘عربی لفظ ہے اور صحابہ جن کے سامنے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کلام فرما رہے تھے وہ بھی عرب تھے پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ترجمہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟یہ ترجمہ ہی صاف بتلا رہا ہے کہ یہ ترجمہ کسی ایسے آدمی نے کیا ہے جو اس حدیث کو ان لوگوں کے سامنے بیان کر رہا تھا جو عر ب نہ تھے ۔
سوم:العاقب کے حقیقی معنیٰ
اگرچہ اس جگہ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ نہیں بلکہ یہ امام زُہریؒ کے الفاظ ہیں اور اس طرح پیش کئے گئے ہیں کہ روایت مُدَلّس ہوگئی ہے۔ تا ہم مراد امام زُہریؒ کی یہی ہو سکتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں اور شریعت لانے والے نبیوں میں سے آپ سب سے پیچھے آنے والے نبی ہیں۔
الْعَاقِب اس شخص کو کہتے ہیں جو بھلائیوں میں اپنے سے پہلوں کا جانشین ہو چنانچہ امام ملا علی القاری ؒ نے اس حدیث کے بارہ میں تحریر فرمایا ہے:
’’اَلظَّاھِرُ اَنَّ ھٰذَا تَفْسِیْرٌ لِّلصَّحَابِیْ اَوْ مَنْ بَعْدَہٗ فِیْ شَرْحِ مُسْلِمٍ قَالَ ابْنُ الْاَعْرَابِیِّ اَلْعَاقِبُ الَّذِیْ یُخْلِفُ فِی الْخَیْرِ مَنْ کَانَ قَبْلَہٗ‘‘ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد5 صفحہ 376 و برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی باب اسماء النبیؐ)
یعنی صاف ظاہر ہے کہ اَلْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ کسی صحابی یا بعد میں آنے والے شخص نے بطور تشریح بڑھا دیا ہے اور ابن عربی نے لکھا ہے ’’عاقب‘‘ وہ ہوتا ہے جو کسی اچھی بات میں اپنے سے پہلے کا قائم مقام ہو۔
چہارم: حدیث کے الفاظ میں تحریف و تبدل
بعض مخالفین نے ہمارے اس زبر دست جواب کی تاب نہ لا کر ترمذی کے نئے ایڈیشن میں اس حدیث کے الفاظ میں یہودیانہ مماثلت کوپورا کرنے کے لیے تحریف کر دی ہے۔ چنانچہ ترمذی مجتبائی جو 1366 ھ یا اس سے قبل چھپی ہے اس میں وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ کے الفاظ ہیں (یعنی عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو) مگر بعد کی اسی مطبع کی چھپی ہوئی ترمذی میں الفاظ یوں ہیں اَلْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ ( کہ عاقب ہو کہ میرے بعد کوئی بنی نہیں )۔
گویا’’بَعْدَہٗ‘‘ غائب کے صیغےکو بدل کر بَعْدِیْ متکلم کا صیغہ بنا دیا ہے تا کہ متکلم کے صیغے سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ الفاظ بھی آنحضرت ﷺ ہی کے ہیں۔ کسی دوسرے شخص کے نہیں۔
(حدیث لا نبی بعدی کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

اِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَنْتُمْ اٰخِرُ الْاُمَمِ
اعتراض نمبر 7 : حدیث میں آیا ہےکہ ’’اِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَنْتُمْ اٰخِرُ الْاُمَمِ‘‘ (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال و خروج عیسیٰ ابن مریم۔ وکتاب الزہد باب صفت امۃ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم) یعنی آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ یقیناً میں آخری نبی ہو جس طرح تم آخری امت ہو۔ پس اس واضح اعلان کے بعد کس طرح کوئی نیا نبی آنحضورﷺ کے بعد آسکتا ہے؟
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: اس حدیث کے راوی ضعیف ہیں
یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ ابن ماجہ نے جن راویوں سے اسے نقل کیا ہے ان میں سے عبدالرحمٰن بن محمد المحاربی اور اسمٰعیل بن رافع (ابو رافع)ضعیف ہیں۔ عبدا لرحمٰن بن محمد کے متعلق لکھا ہے :
قَالَ ابْنُ مَعِیْنٍ یَرْوِیُ الْمَنَاکِیْرَ عَنِ الْمَھْجُوْلِیْنَ قَالَ عَبْداللّٰہِ بن اَحْمَد بن حَنْبَلٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ الْمُحَارِبِیَّ کَانَ یُدَلِّسُ……قَالَ ابْنُ سَعْدٍ کَانَ کَثِیْرُ الْغَلَطِ۔(میزان الاعتدال از ابوعبداﷲ محمد بن احمد عثمان الذھبی 748ھ زیرلفظ عبدالرحمٰن بن محمد المحاربی و تہذیب التہذیب زیرلفظ عبدالرحمن بن محمد المحاربی)
یعنی ابن معین کہتے ہیں کہ یہ راوی مجہول راویوں سے ناقابل قبول روایات بیان کیا کرتا تھا۔ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ راوی تدیس کیا کرتا تھا۔ ابن سعد کہتے ہیں کہ یہ راوی بہت غلط روایات کیا کرتا تھا۔
اس کا دوسرا راوی ابو رافع اسمٰعیل بن رافع بھی ضعیف ہے کیوں کہ لکھا ہے:
ضَعَّفَہٗ اَحْمَدُ وَ یَحْیٰی وَ جَمَاعَۃٌ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ مَتْرُوْکَ الْحَدِیْثِ قَالَ ابْنُ عَدیٍّ اَحَادِیْثُہٗ کُلُّھَا فِیْہِ نَظَرٌ۔(میزان الاعتدال از ابوعبداﷲ محمد بن احمد عثمان الذھبی زیرلفظ ابورافع اسمٰعیل بن رافع جلداول صفحہ 105 حیدرآبادی)
یعنی امام احمد یحییٰ اور ایک جماعتِ محدثین نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے دار قطنی اسے متروک الحدیث کہتے ہیں اور ابن عدی کے نزدیک اس کی تمام کی تمام روایا ت مشکوک ہیں۔ اسی طرح اسے نسائی نے متروک الحدیث قرار دیا ہے اور ابن معین، ترمذی اور ابن سعد کے نزدیک بھی ضعیف ہے۔(تہذیب التہذیب زیرلفظ ابورافع اسمٰعیل بن رافع )
دوم: اس حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ یہاں آخری نبی سے مراد شریعت والے نبی کے ہیں
اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ یہاں آخری نبی سے مراد شریعت والے نبی کے ہیں کیونکہ حدیث کے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ اس میں صرف ان انبیاء کاختم ہونا مذکور ہے جو آکر نئی امت بناتے ہیں اور نئی شریعت لے کر آئیں ۔
اسی طرح قرآن مجید نے اُمّت محمدیہ کو خیر اُمّت قرار دیا ہےجیسا کہ فرمایا :کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ
اسی مضمون کی تشریح اس حدیث کے الفاظ اَنْتُمْ اٰخِرُ الْاُمَمِ میں مذکور ہے یعنی تم بہترین امت ہو۔
سوم: اس حدیث کی تشریح صحیح مسلم کی دوسری حدیث کرتی ہے
حدیث میں آیا ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَنَّ مَسْجَدِیْ اٰخِرُ الْمَسٰجِدِ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فضل الصلوٰۃ فی مسجد المدینۃ و مکۃ و کنزالعمال کتاب الفضائل فضائل الامکنۃ والازمنۃ فضل الحرمین والمسجد الاقصیٰ حدیث نمبر34994)
یعنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد اور کوئی مسجد نہیں بنی؟ بلکہ جتنی مسجدیں دنیا میں مو جو د ہیں سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد ہی تعمیر ہوئی ہیں کیا ان کی تعمیر ناجائز ہوئی ہے ؟ نہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اب میری مسجد کے بعد اور کوئی ایسی مسجد نہیں بن سکتی جو اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے نہ بنائی گئی ہوجو میری مسجد کا مقصد ہے یا جس میں وہ نماز نہ پڑھی جائے جو میری مسجد میں پڑھی جاتی ہے یا جس کا قبلہ اور ہو۔ غرضیکہ مغائرت اور مخالفت کے معنوں میں یہاں اٰخِرُ الْمَسٰجِدِ آیا پس یہی آخر الانبیا ء کا مطلب ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے یا میری شریعت کے خلاف ہویا میری اتباع کے خلاف ہو یا میری اتباع اور متابعت سے باہر ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے ۔
چہارم: آخرکا لفظ افضل کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہوتا ہے
ذیل میں لفظ ’’ آخر ‘‘کی چند مثالیں پیش ہیں جس سے افضل مراد لی جاتی ہے:
مثال نمبر1
شَریٰ وُدِّیْ وَشُکْرِیْ مِنْ بَعِیْدٍ
لِاٰخِرِ غَالِبٍ اَبَداً رَبِیْعٗ
(’’ دیوان الحماسہ‘‘ لابی تمام حبیب بن اوس الطائی باب الحماسہ وقال قیس بن زھیر صفحہ 125 مترجم اردو)
اس شعر کا ترجمہ مولوی ذوالفقار علی صاحب دیو بند ی جو حماسہ کے شارح ہیں یو ں کرتے ہیں۔ ربیع ابن زیاد نے میری دوستی اور شکر دُور بیٹھے ایسے شخص کے لیے، جو بنی غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لیے عدیم المثل ہے، خرید لیا ہے گویا ’’آخر‘‘کا ترجمہ ’’ہمیشہ کے لیے عدیم المثل‘‘ہو ا ۔پس انہی معنو ں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آخر الانبیاء یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم النظیر ہیں ۔
مثال نمبر 2
امام جلال الدین سیو طی نے امام ابن تیمیہ کے متعلق لکھا ہے :
سَیِّدُنَا الْاِمَامُ الْعَالِمُ الْعَلَّامَۃُ۔ اِمَامُ الْاَئِمَّۃِ قُدْوَۃُ الْاُمَّۃِ عَلَّامَۃُ الْعُلَمَاءِ وَارِثُ الْاَنْبِیَاءِ اٰخِرُ الْمُجْتَھِدِیْنَ۔
(الاشباہ والنَّظَائر جلد3 صفحہ 310 مطبوعہ حیدرآباد و محمدیہ پاکٹ بک صفحہ 534 ایڈیشن اپریل 1989ء)
گویا امام ابن تیمیہ آخر المجتہدین تھے کیا ان کے بعد کوئی اور مجتہد نہیں ہو ا؟
مثال نمبر3
ڈاکٹر سر محمد اقبال اپنے استاد داغؔ کا مرثیہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں :
چل بسا داغؔ آہ میت اس کی زیب دوش ہے
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
گویا داغؔ دلی کا آخری شاعر تھا۔اسی مرثیہ میں آگے چل کر ڈاکٹر صاحب موصوف کہتے ہیں:
چل دیئے ساقی جوتھے مہ خانہ خالی رہ گیا
یاد گار بزم دلّی ایک حالی رہ گیا
(بانگ درا از ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صفحہ 57)
گویا داغؔ کے بعد حالیؔ بزم دلّی کی یاد گا ر ہیں۔ نیز داغ کے بعد بھی دلّی میں سینکڑوں شاعر ہوئے ہیں جلیلؔ وغیرہ ان میں سے ممتاز ہیں ۔
پنجم: علم معانی والبیان سے وضاحت
اس حدیث میں الانبیاء کا الف لام عہد خارجی کا ہے اور مراد تمام انبیاء سابقین ہیں ۔جو تشریعی اور مستقل نبی تھے۔ مسیح موعودعلیہ السلام کو تو خود اپنے بعد رسول کریم ﷺ نے نبی اور امتی قرار دیا ہے۔ پس مسیح موعود چونکہ نئی امت بنانے والے نبی نہیں اس لئے امت محمدیہ آخری امت ہے ۔اور ہمیشہ آخری امت رہے گی۔
(لفظ خاتم اور آیت خاتم النبیین کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

لَا نَبُوَّۃَ اِلَّا الْمُبَشِّرَات
اعتراض نمبر 8 : حدیث میں آیا ہے: لَا نَبُوَّۃَ اِلَّا الْمُبَشِّرَات ۔
یعنی میرے بعد کوئی نبوت نہیں۔ صرف بشارت دینے والی باتیں ہیں ۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: المبشرات نبوت کا حصہ ہیں
حدیث لَا نَبُوَّۃَ اِلَّا الْمُبَشِّرَات کا ہی مفہوم حدیث نبویﷺ’’ لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّۃِ اِلَّاالْمُبَشِّرَاتُ‘‘ (صحیح بخاری کتاب التعبیر) کا ہے کہ نبوت میں سے الْمُبَشِّرَاتُ کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ اس حدیث سے ظاہر ہے کہ نبوت کی کلیۃً نفی نہیں ہوئی بلکہ اس کا ایک جزء جو الْمُبَشِّرَات ہیں وہ باقی ہے اور ظاہر ہے کہ مسیح موعود کو امت میں نبیُّ اللہ انہی الْمُبَشِّرَاتُ کی وجہ سے قرار دیا گیا ہے جو رسول کریم ﷺ کی پیروی کے نتیجے میں ملیں۔
جیسا کہ حدیث میں خود اس بات کا اقرار ہے کہ الْمُبَشِّرَاتُ سے مراد الرؤیا الصالحۃ ہے اور الرؤیا الصالحۃ کو نبوت کے اجزاء میں شمار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
قال رسول اللہ ﷺ لانبوۃ بعدی الا المبشرات قیل وما المبشرات قال الرویاء الحسنۃ او قال الرویاء الصالحۃ۔(مسند احمد بن حنبل مرویات ابوطفیل)
یعنی آنحضورﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت میں سے مبشرات والا پہلو باقی رہ گیا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد رؤیا صالحہ ہیں۔
دوم: تمام انبیاء کی نبوت مبشرات اور منذرات پر مبنی ہوتی ہے
اور اسی بات کی تحدی قرآن کریم میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ (سورۃ الانعام :49)
یعنی ہم رسولوں کو مبشر اور منذر بنا کر ہی بھیجا کرتے ہیں۔ پس اس سے واضح ہے کہ تمام انبیاءکی نبوت مبشرات اور منذرات پر مبنی ہے۔
عام آدمی کے مبشرات محض خواب ہیں مگر صلحاء ،اولیاء اور انبیاء کے مبشرات علی الترتیب کشف، الہام اور وحی غیر تشریعی کی صورت میں ہوتے ہیں ۔پس اس حدیث سے بھی نفی تشریعی نبوت کی ثابت ہے ۔علامہ ابن حجر حدیث کی شرع میں فرماتے ہیں:
’’اللام فی النبوۃ للعھد والمراد نبوتہ والمعنی لم یبق بعد النبوۃ المختصۃ بی الا المبشرات ‘‘۔ (فتح الباری جلد12 ص 375دارنشر الکتب السلامیہ لاہور)
یعنی حدیث میں جو النبوۃ کا لفظ آیا ہے اس سے مخصوص طور پر آنحضرت ﷺکی اپنی نبوت مراد ہے (نہ کہ عام نبوت) اور مطلب یہ ہے کہ میری مخصوص نبوت میں سے شریعت والا حصہ تو ختم ہوگیا ہے مگر مبشرات باقی ہیں۔
اس حدیث کی ترکیب لَمْ یَبْقَ مِنَ الْمَالِ اِلَّا الدَّرَاھِمُ یا لَمْ یَبْقَ مِنَ الطَّعَامِ اِلَّا الْخُبْزُ کی طرح ہے کہ مال میں سے دراہم کے سوا کچھ باقی نہیں رہا یا کھانے میں سے روٹی کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ ظاہر ہے کہ دراہم مال کا ہی ایک حصہ ہیں جس طرح روٹی کھانے کا ایک جزء ہے۔
سوم: المبشرات نبوت کا جزءِ ذاتی ہے جبکہ شریعت لانا بنوت کا جزءِ عارض ہے
واضح رہے کہ اَلْمُبَشِّرَاتُ ہی نبوت کی جزء ِ ذاتی ہے۔ شریعت کا لانا نبوت کی جزء ِ ذاتی نہیں بلکہ جزء ِ عارض ہے اسی طرح بعض انبیاء کو نئی شریعت ملتی رہی اور بعض انبیاء پہلی شریعت کے تحت رہے اور قوم میں اُس شریعت کے ساتھ حَکَم تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا۔ (المائدۃ:45 )
ترجمہ: یعنی ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور اس توریت کے ذریعہ کئی نبی جوخدا کے فرمانبردار تھے، یہودیوں کے لئے بطور حَکَم کے کام کرتے تھے۔
شیخِ اکبر حضرت محی الدین ابن عربیؒ تحریر فرماتے ہیں:
عَلِمْنَا اَنَّ التَّشْرِیْعَ فِی النُّبُوَّۃِ اَمْرٌ عَارِضٌ بِکَوْنِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ یَنْزِلُ فِیْنَا حَکَمًا مِّنْ غَیْرِ تَشْرِیْعٍ وَھُوَنَبِیٌّ بِلاَ شَکٍّ۔
(فتوحاتِ مکیّہ جلد اول صفحہ545مطبوعہ دار صادر بیروت)
ترجمہ : ہم نے جان لیا ہے کہ شریعت کا لانا امرِ عارض ہے ۔ یعنی نبوت کی جزء ِ ذاتی نہیں اسی وجہ سے کہ عیسیٰ علیہ السلام ہم میں حَکَم کی صورت میں بغیر نئی شریعت کے نازل ہوں گے اور وہ بلا شک نبی بھی ہوں گے۔
پس نبوت کی جزء ِ ذاتی اَلْمُبَشِّرَاتُ ہی قرار پاتی ہیں جو مخالفوں کے لئے منذرات کا مفہوم رکھتی ہیں اور رسولوں کی یہی شان بیان کی گئی ہے کہ رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ کہ رسول تبشیر وانذار کرنیوالے تھے پس مسیح موعودؑ کو بلاشک غیر تشریعی نبی بھی مانا جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاامتی بھی۔ اور اہلِ عالَم کے لئے حَکَم وعدل بھی۔
چہارم: نبوت کی تعریف
حضرت محی الدین ابن عربیؒ نبوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَلَیْسَتِ النُّبُوَّۃُ بِاَمْرٍ زَائِدٍ عَلَی الْاَخْبَارِ الْاِلٰھِیْ۔ (فتوحات مکیہ جلد 2صفحہ 375 مطبوعہ دار صادر بیروت)
ترجمہ : نبوت خدا سے غیب کی خبریں ملنے سے زیادہ کوئی امر نہیں۔
البتہ قرآن شریف نے اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ نبی کے لئے اخبارِ غیبیہ کو بکثرت پانا شرط ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ (الجن : 27 ، 28)
ترجمہ : خدا عالم الغیب ہے ۔وہ کسی کواپنے غیب پر (دوسرے ملہموں کے مقابلہ میں) غلبہ نہیں بخشتا بجز اس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو۔
عقلاً بھی کثرتِ مکالمہ مخاطبہ مشتمل برامورِ غیبیہ کے بغیر نبی کا نام نہیں مل سکتا جیسے فقیر کے پاس بھی کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے لیکن بادشاہ کے مال و دولت سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح سورج کی روشنی کے سامنے موم بتی کی روشنی کی جو حیثیت ہے وہی ایک عام انسان کی وحی و رؤیا و کشوف اور ایک نبی کی وحی و رؤیا و کشوف کا تناسب ہے۔ پس اسی کثرت ِ غیب کی بنا پر آنحضور ﷺ نے آنے والے مسیح موعود علیہ السلام کو نبی اللہ کے خطاب سے نوازا ہے۔
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

لَوْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ
اعتراض نمبر 9 : حدیث میں آیا ہے : لَوْ کَانَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ ( تر مذ ی کتاب المناقب ۔ باب مناقب عمرؓ ومشکوٰۃ کتاب المناقب باب مناقب عمرؓ) یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو حضرت عمرؓ ہوتے۔ پس اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو حضرت عمرؓ کو خدا تعالیٰ اس مقام پر سرفراز فرماتا۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: اس حدیث کی سند قابل اعتبار نہیں
مکمل حدیث سند کے ساتھ یوں ہے:
عن بکر ابن عمر وعن مشرح بن ھاعان عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ لو کان بعدی نبی لکان عمر بن خطاب ھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ الا من حدیث مشرح بن ھاعان ( تر مذ ی کتاب المناقب ۔ باب مناقب عمرؓ ومشکوٰۃ کتاب المنا قب باب مناقب عمرؓ)
ترمذی اور مشکوٰۃ دونوں میں یہ حدیث موجود ہے ۔مگردونوں میں اس کے آگے ہی لکھا ہوا ہے:
’’ھٰذَاحَدِیْثٌ غَرِیْبٌ‘‘
یعنی یہ حدیث غریب ہے اور حدیث غریب جس کا ایک ہی راوی ہوتا ہے وہ قابل استناد نہیں ہوتی۔
اور امام ترمذی نے اس روایت کو غریب اس لئے کہا ہے کہ اس کا صرف ایک ہی راوی مشرح بن ھاعان کے طر یقہ سے یہ حدیث مروی ہے۔ مشرح بن ھاعان کے متعلق لکھا ہے :
قَالَ ابْنُ حَبَّانَ فِی الضُّعَفَاءِ لَا یُتَابَعُ عَلَیْھَا فَالصَّوَابِ تَرْکُ مَااِنْفَرَدَبِہٖ قَالَ ابْنُ دَاؤُدَ اِنَّہٗ کَانَ فِیْ جَیْشِ الْحُجَّاجَ الَّذِیْنَ حَاصَرُوْااِبْنَ الزَّبَیْرِ وَ رَمُو الْکَعْبَۃَ بِالْمَنْجَنِیْقِ۔(تہذیب التہذیب جلد10 زیرلفظ مشرح بن ھاعان ومیزان الاعتدال جلد3 زیرلفظ مشرح بن ھاعان)
یعنی مشرح بن ھاعان کو ابن حبان نے ضیعف قراردیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی روایات کا اعتبا ر نہیں کیاجاتا اور صحیح بات یہ ہے کہ جس روایت کا یہ اکیلاہی راوی ہو وہ روایت درست تسلیم نہ کی جائے بلکہ ترک کردی جائے ۔ابن داؤد کہتے ہیں کہ یہ راوی حجاج کے اس لشکر میں شامل تھا جنہوں نے حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کا محاصرہ کیا اور منجبیقوں سے کعبہ پر پتھر برسائے تھے۔
نیز مشرح بن ھاعان کے متعلق امام شوکانی لکھتے ہیں کہ وہ ’’متروک‘‘ہے۔ فِیْ اَسْنَادِہٖ مَتْرُوْکَانِ ھُمَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ وَاقِدٍ وَ مِشْرَحُ بْنُ ھَاعَانٍ۔ (الفوالدٔ المجموعہ فی الا حادیث المو ضوعہ مطبوعہ محمد ی پر یس لاہور صفحہ113 سطر1)
اسی طری اس حدیث کاایک اور راوی بکربن عمرو المعافری بھی ہے۔ اس کے متعلق میں لکھا ہے :
’’قَالَ اَبُوْ عَبْدِ الْحَاکَمِ یُنْظُرُ فِیْ اَمْرِہٖ۔‘‘ (تہذیب التہذیب زیرلفظ بکر بن عمرو المعافری)
یعنی اس کی روایت کو مشوک سمجھا جاتاہے۔
دوم: حدیث کا اصل مفہوم
ذیل کی روایات بالمعنی ٰاس کی تشریح کرتی ہیں:
نمبر1۔ لَوْ لَمْ اُبْعَثْ لَبُعِثْتَ یَاعُمَرُ۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ جلد 5 صفحہ 539 و حاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی باب مناقب)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں مبعوث نہ کیا جاتا تو اے عمر !تو مبعوث کیاجاتا۔
یہ حدیث صحیح ہے۔ (دیکھو تعقباتِ سیوطی صفحہ 671)
نمبر2 ۔ لَوْ لَمْ اُبْعَثْ فِیْکُمْ لَبُعِثَ عُمَرُ فِیْکُمْ۔ (کنوز الحقائق جلد2صفحہ73حاشیہ)
یعنی اگر میں تم میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر تم میں مبعوث ہوتا۔
پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوکر مبعوث ہوگئے اس لئے حضرت عمرؓ نبی نہ بنے۔ یہی مفہوم ترمذی کی حدیث کا ہے کہ اگر میں نبی نہ بنایا جاتا تو پھر حضرت عمرؓ میں وہ قابلیتیں تھیں جن کی بنا پر خداتعالیٰ آپؓ کو آنحضورﷺ کی جگہ مقام نبوت پر سرفراز فرماتا۔
نمبر3۔ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ومع ھذا لو عاش ابراھیم وصار نبیا وکذا لو صار عمرؓ نبیا لکانا من اتباعہ علیہ السلام کعیسیٰ والخضر والیاس علیہم السلام فلا یناقض قولہ تعالیٰ خاتم النبیین اذا ا لمعنی انہ لا یاتی نبی بعدہ ینسخ ملتہ ولم یکن من امتہ۔
(موضوعات کبیر عربی صفحہ58،59دہلی مجتبائی پریس دہلی طبع دوم 1346ھ)
یعنی اگر ابراہیم زندہ ہوتے اور نبی ہوتے اور عمرؓ بھی نبی ہوتے تو ہر دو آپؐ کے متبعین سے ہوتے جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام خضر علیہ السلام اور الیاس علیہ السلام ۔تو یہ اللہ تعالیٰ کے قول خاتم النبیین کے منافی نہیں کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپؐ کے بعد کوئی ایسا نبی نہ آئے گا جو آپؐ کی ملت کو منسوخ کردے اور آپؐ کی ملت میں سے نہ ہو۔
سوم: ایک وضاحت
مسیح موعودؑ کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی قرار دیا ہے اور اُمتّی بھی۔ ترمذی کی حدیث میں اُمتّی نبی کا وجود زیر بحث نہیں بلکہ تشریعی نبی کا وجود زیر بحث ہے۔ تشریعی نبوت یہاں اس لئے مراد ہے کہ روایات بالمعنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا ہے کہ اگر میں مبعوث نہ ہوتا تو حضرت عمرؓ مبعوث ہوتے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریعی نبی تھے اس لئے اگر آپ مبعوث نہ ہوتے تو حضرت عمرؓ تشریعی نبی کے طور پر ہی مبعوث ہوتے۔ پس حدیث زیر بحث میں حضرت عمر ؓ کے نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں نبی بننے کی نفی کی گئی ہے نہ کہ قیامت تک کے لئے کسی کے نبی بننے کی نفی۔
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

قال رسول اللہ ﷺ لعلی انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لانبی بعدی
اعتراض نمبر0 1 : جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک پر جاتے ہوئے حضرت علیؓ کو اپنے پیچھے امیرمقرر فرمایا تو حضرت علیؓ مغموم ہوگئے اور آپؐ سے عرض کی کہ اَتَتْرُکُنِیْ فِی النِّسَآءِ وَالصِّبْیَانِ۔ کیا آپؐ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ پیچھے چھوڑ رہے ہیں؟ یعنی آپ مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: اَ لَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسیٰ اِلَّا اَنَّہ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ تبوک)
ترجمہ : اے علی! کیا تُو اس بات پر راضی نہیں کہ تُو مجھ سے اُس مرتبہ پر ہو جو ہارون ؑ کو موسیٰ ؑ سے تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔

اول:۔اس حدیث میں صرف حضرت علیؓ کے نبی ہونے کی ممانعت ہے
آنحضرتﷺ کا غزوۂ تبوک کے موقع پر یہ الفاظ کہنا ہرگز عمومی بات نہیں تھی بلکہ صرف اس وضاحت کے لئے تھی کہ جب حضرت موسیٰ ؑ طور پہاڑ پر تشریف لے گئے تھے تو اس وقت حضرت ہارون ؑ قوم کے نگران تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے مگر حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کے نبی ہونے کی نفی مذکورہ بالا حدیث میں کی تھی جس کا ثبوت درج ذیل حدیث میں ملتا ہے:
قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَا عَلِیُّ اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ کَھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّکَ لَسْتَ نَبِیًّا۔(طبقات کبیر لابن سعد جلد3 صفحہ 25 بیروت 1957ء)
یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایاتھاکہ اے علی! کیا تو خوش نہیں کہ تو مجھے ایسا ہی ہے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو ہارون علیہ السلام۔ مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد تو نبی نہیں ہوگا۔ جبکہ اسی حدیث کی ایک قرأت مسند احمد بن حنبل میں ان الفاظ میں ہے:
وفی روایۃ لمسند الا انک لست بنبی۔ یعنی سنو! یقیناً تو (اے علیؓ) نبی نہیں ہے۔
پس آنحضورﷺ نے خود’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘کی تشریح کردی کہ آپ ﷺ کا یہ خطاب عام نہیں تھا بلکہ خاص حضرت علی ؓسے ہے۔
دوم:۔اس حدیث کی تشریح حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ محدث کی نظر میں
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ نے اس کی تشریح میں تحریر فرمایا ہے :
باید دانست کہ مدلولِ ایں آیت نیست الا استخلافِ علیؓ برمدینہ در غزوئہ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف باستخلافِ موسیٰ ہارون رادر وقتِ سفرِ خود بجانبِ طور و معنی بَعْدِی اینجا غَیْرِیْ است۔ چنانچہ در آیت فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِاللّٰہِ گفتہ اند نہ بُعدیّتِ زمانی۔ (قرۃ العَیْنَین فی تفصیل الشیخین صفحہ 206)
ترجمہ : جاننا چاہئے کہ اس حدیث کا مدلول صرف غزوۂ تبوک میں حضرت علیؓ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اورحضرت ہارونؑ سے تشبیہ دیا جانا ہے جبکہ موسٰیؑ نے طور کی جانب سفر کیا اور بَعْدِی کے معنی اس جگہ غَیْرِیْ ( اس وقت میرے سوا کوئی نبی نہیں) نہ بعدیتِ زمانی جیسا کہ آیت فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِاللّٰہِ کے معنی اللہ کے سوا ہیں۔
پس اس حدیث سے بعدیتِ زمانی کا استنباط حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ وہ آگے لکھتے ہیں:
زیر اکہ حضرت ہارون بعدحضرت موسیٰؑ نماندند تا ایشاں رابعدیتِ زمانہ ثابت بود۔ واز حضرت مرتضیٰ آں را استثناء کنند۔(قرۃ العَیْنَین فی تفصیل الشیخین صفحہ 206)
یعنی بعدیتِ زمانی اس لئے مراد نہیں کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے بعد زندہ نہیں رہے کہ حضرت علیؓ کے لئے بعدیتِ زمانی ثابت ہو اور حضرت علیؓ سے بعدیت زمانی کا استثناء کریں۔

(حدیث لا نبی بعدی کی مزید تشریح پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

ثَـلَا ثُوْنَ کَذَّابُوْنَ۔ 30 جھوٹے مدعیٔ بنوت
اعتراض نمبر 11 : حدیث میں آیا ہے : اِنَّہ سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ ثَـلَا ثُوْنَ کَذَّابُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ نَبِیٌّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔( ابو داؤد کتاب الفتن و الملاحم جز2 ص 234 مظبع مجتبائی دہلی و صحیح بخاری و ترمذی) یعنی آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: 30 کی تعیین میں ایک عظیم الشان پیش گوئی
30 کی تعیین بتاتی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبی آنے کا امکان موجود ہے ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ میرے بعد جو بھی نبوت کا دعویدار ہوگا وہ جھوٹا ہوگا ۔
دوم: اس حدیث کے راوی قابل اعتبار نہیں
یہ حدیث بخاری، ترمذی اور ابوداؤدمیں ہے اور جہاں تک اس حد یث کے راویوں کا تعلق ہے یہ حدیث قابل استناد نہیں۔ بخاری نے اسے ابوالیمان سے بطریقہ شعیب وابو الزنادنقل کیاہے۔ ابوالزناد کے تعلق ربعیہ کا قول ہے :
’’لَیْسَ بِثِقَۃٍ وَلَا رَضًی‘‘ (میزان الا عتدال ذکر عبداﷲ بن ذکوان ابوالزناد)
یعنی راوی نہ ثقہ ہے اور نہ پسند ید ہ ۔ ابوالیمان راوی نے یہ روایت شعیب سے لی ہے مگر لکھا ہے:
لَمْ یَسْمَعْ اَبُوالْیَمَانِ مِنْ شُعَیْبٍ۔ ( میزان الا عتدال ذکر ابوالیمان)
یعنی ابوالیمان نے شعیب سے ایک حدیث بھی نہیں سنی ۔ امام احمد بن حنبلؒ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ پس یہ روایت قابل استناد نہ رہی ۔
تیس دجالوں والی حدیث کو تر مذی نے جس طریقہ سے نقل کیا ہے اس کی اسناد میں ابوقلابہ اور ثوبان دو راوی ناقابل اعتبار ہیں ۔ ابو قلابہ کے متعلق تولکھا ہے:
’’لَیْسَ اَبُوْقَلَابَۃَ مِنْ فُقَھَاءِ التَّابِعِیْنَ وَھُوَ عِنْدَالنَّاسِ مَعْدُوْدٌ فِی الْبُلْہِ‘‘ (تہذ یب التہذیب زیرلفظ ابوقلابہ)
’’اِنَّہٗ مُدَلِّسٌ عَمَّنْ لَحِقَھُمْ وَ عَمَّنْ لَمْ یَلْحَقْھُمْ‘‘(میزان الاعتد ال زیرلفظ ابوقلابہ)
یعنی ابو قلابہ فقہا ء میں سے نہ تھا ۔بلکہ وہ لوگوں کے نزدیک ابلہ مشہور تھا ۔ اورجو اسے ملا اس کے بارے میں اور جواس سے نہیں ملا اس کے بارے میں بھی وہ تدریس کیا کرتا تھا۔
اسی طرح ثوبان کے متعلق ازدی کا قول ہے کہ یَتَکَلَّمُوْنَ فِیْہِ (میزان الا عتدال زیرلفظ ثوبان)
یعنی اس راوی کی صحت میں کلام ہے۔
ترمذی کے دوسرے طریقہ میں عبدالرزاق بن ہمام اور معمربن راشد دو راوی ضعیف ہیں۔
عبدالرزاق بن ہما م تو شیعہ تھا۔ قَالَ النَّسَائِیْ فِیْہِ نَظَرٌ…… اِنَّہُ لَکَذَّابٌ وَالْوَاقِدِیُّ اَصْدَقُ مِنْہُ قَالَ الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِیُّ……کَانَ عَبْدُالرَّزَّاقِ کَذَّابًا یَسْرِقُ الْحَدِیْثَ۔(تہذیب التہذیب زیرلفظ عبدالرزاق و زیرلفظ معمربن راشد)
یعنی نسائی کے نزدیک قابل اعتبار نہیں ۔اور عباس عنبری کہتے ہیں کہ وہ کذاب تھا اور واقدی سے بھی زیادہ جھوٹا تھا یہ شخص کذاب تھا اور حدیثیں چوری کرتا تھا۔
یہ روایت عبدالرحمٰن بن ہمام نے معمرسے لی ہے اور میزان میں لکھا ہے:
قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ یُخْطِیُٔ عَلٰی مَعْمَرَ فِیْ اَحَادِیْثِ……قَالَ ابْنُ عُیُیْنَۃَ اَخَافُ اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا(میزان الاعتدال زیرلفظ معمربن راشد)
یعنی یہ ان روایات میں غلطی کرتا تھا جو یہ معمر سے لینا بیان کرتا تھا ۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ مجھے خوف ہے کہ یہ راوی قرآن مجید کی آیت الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کا مصداق تھا ۔
اسی طرح ’’معمر بن راشد ‘‘ کے متعلق یحییٰ ابن معین کہتے ہیں کہ ’’ضعیف ‘‘ تھا (میزان الاعتدال زیرلفظ معمربن راشد)اور ابن سعد کہتے ہیں کہ شیعہ تھا اور ابوحاتم کہتے ہیں کہ بصرہ میں اس نے جو روایات بیان کی ہیں ان میں غلط روایات بھی ہیں ۔(تہذیب التہذیب زیرلفظ معمربن راشد)
ابوداؤد کے راویوں میں ابو قلابہ اور ثوبان بھی ہیں جن کے متعلق بحث ہو چکی ہے ۔ان کے علاوہ سلیمان بن حزب اور محمد بن عیسیٰ بھی ضعیف ہیں ۔
سلیمان بن حزب کے متعلق خود ابوداؤد کہتے ہیں کہ راوی ایک حدیث کو پہلے ایک طرح بیان کرتا تھا لیکن جب کبھی دوسری دفعہ اسی حدیث کو بیان کرتا تھا تو پہلی سے مختلف ہوتی تھی اور خطیب کہتے ہیں کہ یہ شخص روایت کے الفاظ میں تبدیلی کردیا کرتا تھا (تہذیب التہذیب زیرلفظ سلطان بن حزب)
محمد بن عیسیٰ کے متعلق تو ابوداؤد کہتے ہیں۔ کَانَ رُبَمَا یُدَلِّسُ ( تہذیب التہذیب زیرلفظ محمد بن عیسیٰ)
یعنی یہ کبھی کبھی تدیس کر لیتاتھا ۔
ابوداؤد کے دوسرے طریقہ میں عبدالعز یز بن محمد اور العلا ء بن عبد الرحمٰن ضعیف ہیں ۔ عبدالعز یز بن محمد کو امام احمد بن حنبل نے خطار کار ۔ ابوزرعہ نے ’’سَیِّیُٔ الْحِفْظِ‘‘ا ور نسائی نے کہا ہے کہ ’’لَیْسَ بِالْقَوِیِّ‘‘(یعنی قوی نہیں )
ابن سعد کے نزدیک ’’کثیر الغلط‘‘ اور ساجی کے نزدیک ’’وہمی ‘‘ تھا (تہذیب التہذیب زیرلفظ عبدالعزیز بن محمد)
اسی طرح ابوداؤد کا دوسراراوی العلاء بن عبد الرحمٰن بھی ضعیف ہے کیونکہ ان کے متعلق ابن معین کہتے ہیں:
’’ھٰؤُلَاءِ الْاَرْبَعَۃِ لَیْسَ حَدِیْثُھُمْ حُجَّۃٌ‘‘(1)سہل بن ابی صالح (2)و العلاء بن عبدالرحمٰن (3) وعاصم بن عبید اﷲ (4) ابن عقیل ۔ (تہذیب التہذیب زیرلفظ العلاء بن عبدالرحمٰن)
پس جہاں تک راویوں کا تعلق ہے یہ روایت قابل استناد نہیں ۔
سوم: 30 کی تعداد پوری ہوچکی ہے
اگراس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یاد رکھنا چاہیے کہ مسلم کی شرح’’ اکمال الاکمال ‘‘ میں لکھا ہے :
ھٰذَاالْحَدِیْثَ ظَھَرَصِدْقُہٗ فَاِنَّہٗ لَوْ عُدَّ مَنْ تَنَبَّأَ مِنْ زَمَنِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی الْاٰنَ لَبَلَغَ ھٰذَا الْعَدَدُ وَ یَعْرِفُ ذٰلِکَ مَنْ یُّطَالِعُ التَّارِیْخَ(اکمال الاکمال جلد 7 صفحہ 458مصری)
ترجمہ: اس حدیث کی سچائی ظاہر ہو چکی ہے۔ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو گنا جائے تویہ تعداد پوری ہو چکی ہے اور جو شخص تاریخ کا مطالعہ کرے وہ اسے جان لے گا۔
اس کتاب کے لکھنے والا 828ھ میں فوت ہوا۔ گویا چار سوسال پہلے تک یہ گنتی مکمل ہوچکی ہے اور تیس دجا ل آ چکے ہیں مگر مولوی اب تک تیس کے عدد کو طویل کئے جارہے ہیں۔
اسی طرح نواب صدیق حسن خانصاحب آف بھوپال حضرت مر زا صاحب کے دعویٰ سے قبل اپنی کتاب حجج الکرامہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ دجالوں کی تعداد پوری ہوچکی ہے چنانچہ ان اصل عبارت فارسی حسب ذیل ہے :
’’ بالجملہ آنچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اخباربوجود دجالین کذابین دریں امت فرمودہ بود، واقع شد۔‘‘
(حجج الکرامہ ص 239 از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال)
یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو اس امت میں دجالوں کی آمدکی خبردی تھی وہ پوری ہو کر تعداد مکمل ہو چکی ہے۔
غر ضیکہ خواہ 27 دجالوں کی آمد کی پیشگوئی ہو یا خواہ 30 کی بہرحال وہ تعداد پوری ہوچکی ہے۔
چہارم: 30 جھوٹے مدعیان نبوت دراصل آنحضورﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان آنے تھے
اُمّتِ محمدیہ کا مسیح موعود اس حدیث کا مصداق نہیں ہو سکتا کیونکہ اُسے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لَیْسَ بَیْنِیْ وَبَیْنَہ نَبِیٌّ وَإِنَّهُ نَازِلٌ فرما کر نبی قرار دیا ہے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال)۔پس یہ تیس کذّاب وہی ہو سکتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعودؑ کے درمیانی زمانہ میں امّت میں سے نبوت کا دعویٰ کریں گے۔
چنانچہ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث میں ایسی نبوت کے دعویٰ کرنے والے کا استثناء بھی مذکور ہے ۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
سَیَکُوْنُ بَعْدِیْ ثَـلَا ثُوْنَ کُلُّھُمْ یدْعٰی اَنَّہ نَبِیٌّ وَاَنَّہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ اِلاَّمَاشَاءَ اللّٰہُ۔ (نبر اس شرح الشرح لعقائد النسفی صفحہ445)
ترجمہ: میری اُمّت میں تیس آدمی ہوں گے اُن میں سے ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس نبی کے جسے اللہ چاہے۔
اس روایت کے متعلق بشرطِ صحت صاحب نبر اس لکھتے ہیں کہ الَّا کے استثناء کا تعلق مسیح موعود سے ہے۔ نیز نبراس کے حاشیے میں لکھا ہے :
وَالْمَعْنٰی لَا نَبِیَّ بِنُبُوَّۃِ التَّشْرِیْعِ بَعْدِیْ اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہُ مِنْ اَنْبِیَآءِ الْاَوْلِیَآءِ۔ (نبر اس حاشیہ صفحہ445)
ترجمہ: حدیث کے فقرہ لا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے معنیٰ یہ ہیں کہ کوئی نبی تشریعی نبوت کے ساتھ میرے بعد نہیں ہو گا اِلَّا مَاشَاءَ اللّٰہُ کے استثناء سے مراد اَنْبِیَاءِ الْاَوْلِیَاء ہیں یعنی وہ اولیاء جو اس امت میں مقام نبوت پانے والے ہیں۔
(لفظ خاتم النبیین اور حدیث لا نبی بعدی کی بحث پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

میری امت میں اگر کوئی خدا تعالیٰ سے ہمکلامی کاشرف پاتا تو وہ عمرؓ ہوتے
اعتراض نمبر12 : حدیث میں آیا ہے : قال النبی ﷺ لقد کان فیمن قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونوا انبیاء فان یکن فی امتی احدٌ فعمر (صحیح بخاری کتاب المناقب)
ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے آدمی گزرے ہیں جو بغیر نبی ہونے کے (خدا سے) ہمکلامی کا شرف دئیے جاتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہوا تو وہ عمر ہیں۔ پس اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور وحی الٰہی بھی اب سوائے حضرت عمر ؓ کے اس امت میں کسی دوسرے شخص کو نصیب نہیں ہوسکتی۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: اس حدیث کا تعلق صرف غیر نبی مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ پانے والوں سے ہے
اس حدیث کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ اس کا تعلق صرف غیر نبی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ پانے والوں سے ہےجن میں سے ایک حضرت عمرؓ بھی ہیں۔اس حدیث کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ امت محمدیہ ﷺ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی اور شخص خدا تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف نہیں رکھے گا خواہ وہ نبی ہو یا غیر نبی۔کیونکہ واقعات شاہد ہیں کہ امت محمدیہ ﷺ میں ہزاروں اولیاء اللہ نے خدا تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف پایا ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اس بات کی دلیل ہیں کہ وحی الٰہی کا سلسلہ قیامت تک اس امت میں جاری رہے گا۔ اس ضمن میں ایک آیت حسب ذیل ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ (حٰمٓ السجدہ:۔31)
ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے، پھر استقامت اختیار کی، اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو۔
دوم: اگر وحی الٰہی کا سلسلہ بھی اس امت سے منقطع ہوجائے تو یہ امت خیر امم کیسے ہوسکتی ہے؟
قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ یہ امت بہترین امت ہے جبکہ گزشتہ امتوں میں تو مرد کیا عورتوں کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی تھی جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ اور حضرت مریم ؑ کو وحی و الہام سے مشرف کئے جانے کا ذکر موجود ہے۔ پس ایسا دعویٰ کرنا کہ اس امت میں نبوت تو کیا وحی بھی حضرت عمر ؓ کے سوا کسی دوسرے فرد کو نہیں ہوسکتی قرآنی حقائق و دلائل کے منافی ہے۔
سوم: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضور ﷺ نے نبی اللہ اور صاحب وحی قرار دیا ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو تو امت محمدیہ ﷺمیں آنحضرت ﷺ نے نبی اللہ اور صاحب وحی قرار دیا ہےجیسا کہ حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهُ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
اسی طرح آنے والے مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی وحی سے مشرف ہونے کے بارہ میں درج ذیل حدیث کی تائید بھی حاصل ہے:
اوحی اللہ تعالیٰ الیٰ عیسیٰ اَنّی قد اخرجتُ عباداً لی لا یدانِ لاحدٍ بقتالھم۔ فحرِّزْ عبادی الی الطور۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ذکر الدجال و صفتۃ وما معہ)
اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ یقیناً میں نے ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے جنگ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہوگی۔ پس تو میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف لے کر چلا جا۔
(امت محمدیہ ﷺ میں سلسلہ ٔ وحی و الہام جاری ہونے کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا اُمَّۃَ بَعْدَ اُمَّتِیْ
اعتراض نمبر13 : حدیث میں آیا ہے : لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا اُمَّۃَ بَعْدَ اُمَّتِیْ (بیہقی کتاب الرؤیاء)رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔ پس آنحضورﷺ کے آخری نبی ہونے پر اس سے زیادہ اور کیا وضاحت درکار ہے؟
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول: اس حدیث میں صرف صاحب شریعت نبی آنے کی ممانعت کا ذکر ہے
اس حدیث کا مطلب تو نہایت واضح ہے کہ نئی امت قائم کرنا صاحب شریعت نبیوں کا کام ہے ۔آنحضرت ﷺ کے بعد نہ کوئی صاحب شریعت نبی آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی نئی امت قائم ہونے والی ہے ۔ پس جماعت احمدیہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں امتی نبوت کے جاری ہونے کی دعویدار ہے جو اس حدیث کے ہرگز مخالف نہیں ہے۔
دوم: حدیث لا نبی بعدی کی تشریح از بزرگان امت
لانبی بعدی کے الفاظ جو احادیث میں آئے ہیں ان کی تشریح میں حضرت امام ملا علی قاری علیہ الرحمۃ کا ایک قول پیش ہے۔ آپ ؒ فرماتے ہیں:
ورد لانبی بعدی معناہ عند العلماء یحدث بعدہٗ نبی بشرعٍ ینسخ شرعہٗ (الاشاعہ فی اشراط الساعہ ص149مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ترجمہ:۔حدیث لانبی بعدی کے الفاظ وارد ہیں اس کے معنی ٰعلماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ کوئی ایسا نبی پیدا نہیں ہوگا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کرے۔
پس جب اس حدیث کی رو سے آنحضرت ﷺ آخری تشریعی نبی قرار پاتے ہیں کیونکہ تشریعی اور مستقل نبی ہی نئی امت بناتا ہے۔لہٰذا اس حدیث سے مراد صر ف یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی شارع نبی نہیں آئے گا جو نئی امت بنا سکے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواپنے بعد آنحضرت ﷺ نے نبی اللہ بھی قرار دیا ہے اور اپنا امتی بھی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: «أَلَا» إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيُّ، أَلَا انہ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي۔(المعجم الصغیر للطبرانی جزء اول۔ صفحہ257۔ بیروت لبنان)
یعنی : سُن لو ! مسیح موعود ؑ اور میر ے درمیان کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں ہے اور سُن لو کہ وہ میری اُمّت میں میرے بعد میرا خلیفہ ہے۔
پس آنے والا مسیح موعودؑ نئی امت بنانے والا نبی نہیں کیونکہ وہ ایک پہلو سے نبی ہے اور ایک پہلو سے امتی بھی۔ اور جو خود امتی بھی ہو وہ نئی امت نہیں بنا سکتا ۔
(حدیث لا نبی بعدی کا حقیقی مفہوم سمجھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

فَاِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَنَّ مَسْجَدِیْ اٰخِرُ الْمَسٰجِدِ
اعتراض نمبر14 : حدیث میں آیا ہے : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ وَ اَنَّ مَسْجَدِیْ اٰخِرُ الْمَسٰجِدِ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فضل الصلوٰۃ فی مسجد المدینۃ و مکۃ و کنزالعمال کتاب الفضائل فضائل الامکنۃ والازمنۃ فضل الحرمین والمسجد الاقصیٰ حدیث نمبر34994) یعنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اس امت میں کوئی نبی نہیں آسکتا۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
اول:ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند کرنے والے احباب سے ایک سادہ سا سوال
کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد اور کوئی مسجد نہیں بنی؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد جتنی بھی مساجد دنیا میں تعمیر ہوئیں وہ سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد ہی تعمیر ہوئی ہیں۔ کیا ان کی تعمیر ناجائز ہوئی ہے ؟ نہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اب میری مسجد کے بعد اور کوئی ایسی مسجد نہیں بن سکتی جو اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے نہ بنائی گئی ہوجو میری مسجد کا مقصد ہے یا جس میں وہ نماز نہ پڑھی جائے جو میری مسجد میں پڑھی جاتی ہے یا جس کا قبلہ اور ہو۔ پس اٰخِرُ الْمَسٰجِدِ کا لفظ یہاں مغائرت اور مخالفت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اوریہی آخر الانبیا ء کا مطلب ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے یا میری شریعت کے خلاف ہویا میری اتباع کے خلاف ہو یا میری اتباع اور متابعت سے باہر ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے ۔
دوم: ایک ضعیف روایت
بعض احباب کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آخِرُ الْمَسَاجِدِ الْاَنْبِیَآءِ کے الفاظ وارد ہیں کہ مسجد نبوی انبیاء کی مسجدوں میں سے آخری ہے مگر یہ حدیث ضعیف ہے ۔ تاہم آخر کے معنیٰ عربی زبان میں افضل کے بھی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آنحضور ﷺ فرماتے ہیں:
صلوٰۃٌ فی مسجدی ھذا خیرٌ من الف صلوٰۃٍ فی ما سواہ الا المسجد الحرام۔ (صحیح بخاری کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ)
یعنی میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دوسری مساجد کے ثواب سے ہزار گنا زیادہ ہے سوائے مسجد الحرام کے۔پس یہاں مسجد نبوی ﷺ کی فضلیت کا ذکر ہے نہ کہ دنیا کی آخری مسجد کے ہونے کا۔ پس انہیں معنیٰ میں آنحضور ﷺ کا مقام و مرتبہ دیگر انبیاء علیھم السلام سے اعلیٰ و ارفع ہے اور انہی معنیٰ میں آپﷺ آخری ہیں۔
سوم: آخرکا لفظ افضل کے معنیٰ میں بھی مستعمل ہوتا ہے
ذیل میں لفظ ’’ آخر‘‘ کی چند مثالیں پیش ہیں جس سے افضل مراد لی جاتی ہے:
مثال نمبر1
شَریٰ وُدِّیْ وَشُکْرِیْ مِنْ بَعِیْدٍ
لِاٰخِرِ غَالِبٍ اَبَداً رَبِیْعٗ
(’’ دیوان الحماسہ‘‘ لابی تمام حبیب بن اوس الطائی باب الحماسہ وقال قیس بن زھیر صفحہ 125 مترجم اردو)
اس شعر کا ترجمہ مولوی ذوالفقار علی صاحب دیو بند ی جو حماسہ کے شارح ہیں یو ں کرتے ہیں۔ ربیع ابن زیاد نے میری دوستی اور شکر دُور بیٹھے ایسے شخص کے لیے، جو بنی غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لیے عدیم المثل ہے، خرید لیا ہے گویا ’’آخر‘‘کا ترجمہ ’’ہمیشہ کے لیے عدیم المثل‘‘ہو ا ۔پس انہی معنو ں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی آخر الانبیاء یعنی ہمیشہ کے لئے عدیم النظیر ہیں ۔
مثال نمبر 2
امام جلال الدین سیو طی نے امام ابن تیمیہ کے متعلق لکھا ہے :
سَیِّدُنَا الْاِمَامُ الْعَالِمُ الْعَلَّامَۃُ۔ اِمَامُ الْاَئِمَّۃِ قُدْوَۃُ الْاُمَّۃِ عَلَّامَۃُ الْعُلَمَاءِ وَارِثُ الْاَنْبِیَاءِ اٰخِرُ الْمُجْتَھِدِیْنَ۔
(الاشباہ والنَّظَائر جلد3صفحہ 310 مطبوعہ حیدرآباد و محمدیہ پاکٹ بک صفحہ 534ایڈیشن اپریل 1989ء)
گویا امام ابن تیمیہ آخر المجتہدین تھے کیا ان کے بعد کوئی اور مجتہد نہیں ہو ا؟
مثال نمبر3
ڈاکٹر سر محمد اقبال اپنے استاد داغؔ کا مرثیہ لکھتے ہوے کہتے ہیں :
چل بسا داغؔ آہ میت اس کی زیب دوش ہے
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
گویا داغؔ دلی کا آخری شاعر تھا۔اسی مرثیہ میں آگے چل کر ڈاکٹر صاحب موصوف کہتے ہیں:
چل دیئے ساقی جوتھے مہ خانہ خالی رہ گیا
یاد گار بزم دلّی ایک حالی رہ گیا
(بانگ درا از ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صفحہ 57)
گویا داغؔ کے بعد حالیؔ بزم دلّی کی یاد گا ر ہیں۔ نیز داغ کے بعد بھی دلّی میں سینکڑوں شاعر ہوئے ہیں جلیلؔ وغیرہ ان میں سے ممتاز ہیں ۔
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

اَنَا الْمُقَفّٰی۔ میں آخری نبی ہوں
اعتراض نمبر15 : حدیث میں آیا ہے : اَنَا الْمُقَفّٰی( صحیح مسلم کتاب فضائل النبیؐ باب فی اسماء النبی صلی اﷲ علیہ وسلم) مقفیٰ کے معنیٰ آخری بنی کے ہیں۔
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
جواب: اَلْمُقَفّٰی کے معنیٰ آخری نبی کے نہیں ہیں
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بے شک المقفّٰی ہیں مگر المقفّٰی کاترجمہ آخری نبی ہونے کے ہرگز نہیں ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن الانباری صحیح مسلم کی شرح اکمال الاکمال میں فرماتے ہیں:
مَعْنَاہُ اَلْمُتَّبَعُ لِلنَّبِیِّیْنَ۔ (اکمال الاکمال شرح مسلم جلد 6 صفحہ 143)
ترجمہ : اس کے معنیٰ ہیں کہ ایسا شخص جس کی پیروی نبی کریں۔
گویا یہ نام بذاتِ خود اس امر کا مقتضی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انبیاء آویں جو آ پ کی پیروی اور اتباع کریں اس کو انقطاع نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کرنا نادانی ہے۔
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

 

یعفور نامی گدھے کا عقیدہ کہ آنحضورﷺ آخری نبی ہیں
اعتراض نمبر16 : یعفور نامی گدھے کا عقیدہ تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ آئے گا۔ چنانچہ ابن حبّان اور ابن عساکر نے اس کو روایت کیا ہے کہ یعفور نامی گدھے نے کہاکہ لَا مِنَ الْاَنْبِیَآءِ غَیْرُکَ کہ اے رسول اللہ ﷺ! میری خواہش تھی کہ مجھ پر کوئی نبی سو اری کرے ۔ اب آپ کے سوا کوئی نبی نہیں رہ گیا اور میری نسل میں سے میرے سوا کوئی گدھا باقی نہیں رہا۔( رسالہ حجۃاﷲ للعٰلمین صفحہ 460 بحوالہ رسالہ ختم نبوت مصنفہ النبی الخبیر مولوی محمد بشیر کوٹلی لوہاراں صفحہ 26 اور 27)
جماعت احمدیہ کا بنیادی مؤقف
جماعت احمدیہ کا یہ بنیادی مؤقف ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ بڑی وضاحت اور صراحت سے آنے والے مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو آنحضور ﷺ کی اتباع میں نبی اللہ قرار دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں آنحضور ﷺ نے مسیح موعود علیہ السلام کو 4 بار نبی اللہ قرار دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس حدیث میں فرماتے ہیں:
یُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسٰی وَأَصْحَابُہٗ ۔۔۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیسَی وَأَصْحَابُہٗ إِلَی اللّٰہِ ۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال )
نیز ایک اور موقعہ پر فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” لَيْسَ بَيْنِيْ وَبَيْنَهٗ نَبِيٌّ – يَعْنِي عِيسَى – وَإِنَّهٗ نَازِلٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَاعْرِفُوْهُ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم ، باب خروج الدجال )
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ۔ اور وہ ضرور نازل ہوں گے ۔ پس جب تم انہیں دیکھو تو پہچان لینا ۔
پس آنحضورﷺ کے اس اصولی ارشاد کی روشنی میں آنے والا مسیح و مہدی آنحضور ﷺ کی غلامی میں مقام نبوت پر فائز ہوگا پس جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر اپنا امتی نبی قرار دے دیا ہواس کے نبی ہونے سے انکار کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے سے بغاوت کرنا ہے۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث کے حقیقی مفہوم کوسمجھنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں درج ذیل امور کو مدنظر رکھا جائے۔
جواب: یہ روایت پیش کرنا آنحضرت ﷺ کی شان میں حد درجہ گستاخی ہے
اس روایت کا جواب یہی ہے کہ اس کا کوئی جواب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت محض بے اصل اور بے سند ہے اور اس روایت کو پیش کرناخو د آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں حد درجہ گستاخی کے مترادف ہے ۔
فی الواقعہ اگر گدھے کا یہی خیال تھا کہ نبوت بند ہو گئی ہے تو یہ گدھا توساتھ ہی ساتھ وفات مسیح کا بھی اعلان کر رہا ہے کیونکہ کہتا ہے کہ میری خواہش تھی کہ مجھ پر کوئی نبی سو اری کرے ۔ اب آپ کے سوا کوئی نبی نہیں رہ گیا اور میری نسل میں سے میرے سوا کوئی گدھا باقی نہیں رہا۔ اگر اس گدھے کا یہی مذہب درست ہے تو یہ وفات مسیح کی دلیل ہے ۔
(قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ سے امتی نبوت کے امکان کے دلائل پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

امکان نبوت از روئے احادیث

صحیح مسلم کی حدیث میں آنے والے مسیح کو چار دفعہ نبی اللہ کہا گیا :۔ رسول اللہ ﷺ نے امت محم…