وحی و الہام کے جاری ہونے کا ثبوت از اقوال بزرگان سلف

1۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کےاقوال
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ جب تو خدا کا ہو جائیگا تو خدا تجھ سے کلام کرے گا۔ آپؒ فرماتے ہیں:
’’ فَیُؤْ خَذُ بِیَدِکَ فَتُقَدَّمُ وَیُنْزَعُ عَنْکَ مَا عَلَیْکَ ثُمَّ تُغَوَّصُ فِیْ بِحَارِالْفَضَائِلِ وَالْمِنَنِ وَالرَّحْمَۃِ فَیُخْلَعُ عَلَیْکَ خِلَعُ الْاَنْوَارِ وَالْاَسْرَارِ وَالْعُلُوْمِ الْغَرَائِبِ اللَّدُنِّیَّۃِ فَتُقَرَّبُ وَتُحَدَّثُ وَتُکَلَّمُ وَ تُعْطیٰ وَ تُغْنٰی وَ تُشَجَّعُ وَ تُرْفَعُ وَ تَخَاطَبُ بِأَنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ أَمِیْنٌ۔
( فتوح الغیب مقالہ62)
’’تو پھر تیرا ہاتھ پکڑا جائیگا اورتو مقد ّم کیا جائیگا اور تجھ سے سختی اور بوجھ اُٹھا لیا جائیگا ۔پھر احسان،رحمت اور کمالات کے سمندر میں تجھے غوطہ دیا جائیگا پھر انوار و اسرار کی خلعت تجھے پہنائی جائیگی اور نادر علوم لدنیہ کا جامہ تجھے دیا جائیگا اور تو مقرب بنے گا پھر تجھ سے گفتگو شروع ہوگی اور تجھے کلام سے نوازا جائیگا۔تجھ پر خدا کی عطا ہوگی اور تو غنی اور بہادر بنایا جائیگا اور تجھے عزت دی جائیگی اور تجھ سے بایں کلام خطاب کیا جائیگا کہ اب تو ہمارے نزدیک بلند مرتبہ اور امین ہے ۔‘‘

اسی طرح حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ہر سالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ اے انسان ! اگر تو نیکی میں ترقی کرتا چلا جائے تو اللہ تعالیٰ تجھے اتنی عزّت دے گاکہ تُخَاطَبُ بِاَنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔ ‘‘
(فتوح الغیب مقالہ 82، صفحہ 171 سورۃ یوسف )
یعنی : خدا تعالیٰ تجھے سورۂ یوسف کی اس آیتِ قرآنی سے مخاطب فرمائے گا کہ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ ۔ یعنی تو آج سے ہمارے ہاں معّزز مرتبہ والا اور قابلِ اعتماد آدمی شمار ہوگا۔‘‘

2۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کے ارشادات
کلام الہٰی اور وحی کی جو اقسام خدائے تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں انہیں بیان کرنے کے بعد حضرت شیخ اکبر ابن عربی فرماتے ہیں:
’’وَھٰذَاکُلُّہٗ مَوْجُوْدٌ فیِ رِجَالِ اللّٰہ ِ مِنَ الْاَوْلِیَاءِ وَالَّذِیْ اخْتُصَّ بِہِ النَّبِیُّ مِنْ ھٰذَا دُوْنَ الْوَلیِ اَلْوَحْیُ بِالتَّشْرِیْع ۔‘‘
(الفتوحات المکیۃ جزء 2صفحہ 632)
یعنی : یہ تمام قسم کی وحی اللہ کے بندوں یعنی اولیاء میں پائی جاتی ہے۔ہاں وہ وحی جونبی کے لئے مخصوص ہے اور ولی کو نہیں ملتی ،وحی تشریعی ہے ۔‘‘
پس ایسی وحی جس میں کوئی نیا حکم مخالف قرآن ہو نہیں اتریگی اگر کوئی امتی نبی مبعوث ہوتا ہے اور اسے وحی کا شرف حاصل ہوتا ہے تو اس میں کوئی عقلی اور نقلی روک نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو قرآن مجید کے خلاف ہو ۔

قرآنی آیات کا غیر نبی کو الہام ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی ؒ لکھتے ہیں :
’’اَمَّا الْاِلْقَاءُ بِغَیْرِ التَّشْرِیْعِ فَلَیْسَ بِمَحْجُوْرٍ وَلَا التَّعْرِیْفَاتُ الْاِلٰہِیَّۃُ لِصِحَّۃِ الْحُکْمِ الْمُقَرَّرِ اَوْ فَسَادِہٖ وَکَذٰلِکَ تَنَزُّلُ الْقُرْاٰنِ عَلٰی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَاءِ مَانْقَطَعَ مَعَ کَوْنِہٖ مَحْفُوْظًا لَّہُمْ وَلٰکِنْ لَّہُمْ ذَوْقُ الْاِنْزَالِ وَہٰذَا لِبَعْضِہِمْ۔‘‘
(فتوحات ِ مکیہّ جلد 2 صفحہ 782 )
یعنی غیر تشریعی الہام ممنو ع نہیں۔ اور نہ ایسا الہام ممنوع ہے جس کے ذریعہ خدا تعا لیٰ کسی پہلے ثابت حُکم کی شناخت کرائے یاکسی حُکم کے فساد یا خرابی کوظاہر کرے۔یہ دونوں قسم کے الہام منقطع نہیں ۔ایسا ہی قرآنِ کریم کا نزول اولیاء کے قلوب پر منقطع نہیں ۔باوجود یکہ قرآنِ مجید اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے۔لیکن اولیاء کو نزولِ قرآنی کا ذوق عطا کرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے ۔اور ایسی شان بعض کو عطا کی جاتی ہے ۔

3۔ حضرت عبد الوہاب الشعرانیؒ کا قول
حضرت عبد الوہاب الشعرانی فرماتے ہیں :
’’اِعْلَمْ اَنَّہُ لَمْ یَجِیْ ءُ لَنَا خَبَرٌ اِلٰھیٌّ اَنَّ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَحْیَ تَشْرِیْعٍ اَبَداً اِنَّمَا لَنَا وَحْیُ الْاِلْھامِ ۔‘‘
(الیواقیت والجواھر جزء 2 صفحہ 48)
یعنی: ہمیں خدا کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدوحی تشریعی کبھی نازل ہوگی البتہ ہمارے لئے الہا م والی وحی ضرور موجود ہے۔
اس میں وحی الالہام کے الفاظ صرف اس لئے استعمال کئے گئے ہیں تاکہ قارئین کرام یہ ملحوظ رکھیں اور ہرگز نہ بھولیں کہ ایسی وحی جس میں کوئی نیا حکم خلافِ قرآن مجید نہیں وہی نازل ہو سکتی ہے اور وہ وحی جس میں کوئی نیا حکم ہو خواہ اسے وحی تشریعی کہیں یا وحی نبوۃ ہرگز نازل نہ ہوگی۔

4۔ حضرت علامہ الوسیؒ کا بیان
حضرت علامہ الوسی ؒ اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں :
’’اِعْلَمْ اَنَّ بَعْضَ الْعُلَمَاءِ اَنْکَرُوْا نُزُوْلَ الْمَلَکِ عَلٰی قَلْبِ غَیْرِالنَّبِیِّ لِعَدْمِ ذَوْقِہٖ لَہٗ وَالْحَقُّ اِنَّہٗ یَنْزِلُ وَلٰکَنْ بِشَرِیْعِۃِ نَبِیِّنَا صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
( روح المعانی جزء 7 صفحہ 623)
یعنی: تمہیں یہ علم ہونا چاہئے کہ بعض علماء نے غیر نبی کے دل پر فرشتہ کے نازل ہونے کا انکار کیا ہے ۔یہ اس وجہ سے ہے کہ اس نے اس کا مزہ نہیں چکھا ۔ حق بات یہ ہے کہ فرشتہ تو نازل ہوتا ہےلیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ۔یعنی فرشتہ ایسا کوئی حکم لیکر کسی کے پاس نہیں آتا جو ہمارے نبیٔ کریم ﷺ کی شریعت کے مطابق نہ ہو۔

5۔ حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمۃ کے ارشادات
حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمۃ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں :
’’اِنَّ کَلَامَ اللّٰہِ قَدْ یَکُوْنُ شَفَاھاً وَذَالِکَ الْاَفْرَادَمِنَ الْاَنْبِیَاءِ وَقَدْ یَکُوْنَ لِبَعْضِ الْکُمَّلِ مِنْ مُّتَابِعِیْھِمْ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں سے بالمشافہ کلام کرتا ہے اور یہ لوگ انبیاء ہوتے ہیں اور کبھی انبیاء کے بعد ان کے کامل متّبعین سے بھی اس طرح کلام کرتا ہے ۔ آگے فرماتے ہیں:
’’وَ اِذَاکَثُرَ ھٰذَا الْقِسْمُ مَعَ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ سُمِّیَ مُحَدَّثًا۔‘‘
یعنی جب انبیاء کے کسی کامل متّبع سے خدا تعالیٰ اس قسم کا کلام بکثرت کرتا ہے تو اس کا نام محدّث یعنی مکلّم مِنَ اللہ رکھا جاتا ہے۔
حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمۃ مزیدتحریر فرماتے ہیں:
’’ ہمچنانکہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام آں علم را از وحی حاصل مے کرد۔ایں بزرگواران بطریق الہام آں علوم را از اصل اخذمے کنند۔علماء ایں علوم را از شرائع اخذ کردہ بہ طریق اجمال آوردہ اندہماں علوم چنانکہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام حاصل بود تفصیلاًوکشفاً ایشاں رانیزبہماں وجوہ حاصل میشود اصالت و تبیعّت درمیان است بہ ایں قسمِ کمالِ اولیاء کُمّل بعضے ازیشاں از قرونِ متطاولہ و ازمنۂ متباعدہ انتخاب مے فرمائند۔ ‘‘
(مکتوبات جلد اول: 40)
ترجمہ: جیسے نبی کریم ﷺْ وہ علوم وحی سے حاصل کرتے تھے یہ بزرگوار الہام کے ذریعہ وہی علوم اصل یعنی خدا تعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں اور عام علماء ان علوم کو شریعتوں سے اخذ کرکے بطریق اجمال پیش کرتے ہیں ۔وہی علوم جس طرح انبیاء کو تفصیلاً و کشفاًحاصل ہوتے ہیں ان بزرگوں کو بھی انہی طریقوں سے حاصل ہوتے ہیں ۔دونوں کے علوم کے درمیان صرف اصالت اور تبعیت کا فرق ہوتا ہے ۔ایسے باکمال اولیاء میں سے بعض کو صدیوں اور لمبا زمانہ گزرنے پر انتخاب کیا جاتا ہے۔

6۔ حضرت سیّداسمٰعیل صاحب شہید ؒ کا ارشاد
حضرت سیّداسمٰعیل صاحب شہیدؒ اپنی کتاب منصبِؔ امامت میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ بایددانست ازاں جملہ الہام است ہمیں الہام کہ بانبیاء ثابت است آں را وحی گوئندواِگر بغیر ایشاں ثابت مے شود اور اتحدیث مے گوئند وگاہے در کتاب اللہ مطلق الہام را خواہ بانبیاء ثابت مے شودخواہ باولیاء اللہ وحی مے نامند۔‘‘
(منصب ؔ امامت صفحہ 13 )
ترجمہ: خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک الہام بھی ہے ۔یہ الہام جو انبیاء کو ہوتا ہے اُسے وحی کہتے ہیں اور جو انبیاء کے علاوہ دوسروں کو ہوتا ہے اس کو تحدیث کہتے ہیں ۔کبھی مطلق الہام کو خواہ انبیاء کو ہو یا اولیاء کو قرآن مجید کی رُو سے وحی کہتے ہیں۔

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

بزرگان سلف پر ہونے والی وحی و الہام اور رؤیا و کشوف کا ذکر

1۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ کی وحی کا ذکر حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عر…