ثبوت صداقت حضرت مسیح موعودؑ از سورة الحاقہ 45تا47

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْن۔ (الحاقہ :45تا47)

ترجمہ:۔ اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا۔تو ہم اُسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے ،پھر ہم یقیناً اس کی رگ ِ جان کاٹ ڈالتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ایک شمشیر برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ یہ نبی اگر میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افترا کرتا تو میں اس کی رگِ جان کاٹ دیتا اور اس مدت دراز تک وہ زندہ نہ رہ سکتا۔تو اب جب ہم اپنے اس مسیح موعود کو اس پیمانہ سے ناپتے ہیں تو براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ منجانب اللہ ہونے اور مکالماتِ الٰہیہ کا قریبًاتیس برس سے ہے اور اکیس برس سے براہین احمدیہ شائع ہے۔ پھر اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیئس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ جبکہ خداتعالیٰ نے اس جگہ ایک جھوٹے مدعی رسالت کو تیس برس تک مہلت دی اور وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَاکے وعدہ کا کچھ خیال نہ کیا تو اسی طرح نعوذ باللہ یہ بھی قریب قیاس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی باوجود کاذب ہونے کے مہلت دے دی ہومگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کاذب ہونا محال ہے۔ پس جو مستلزم محال ہو وہ بھی محال۔ اور ظاہر ہے کہ یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جبھی ٹھہر سکتا ہے جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا اس مفتری کو جو خلقت کے گمراہ کرنے کے لئے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کبھی مہلت نہیں دیتا کیونکہ اس طرح پر اُس کی بادشاہت میں گڑبڑ پڑ جاتا ہے اور صادق اور کاذب میں تمیز اُٹھ جاتی ہے۔ ‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 42)

 ایک اور جگہ آپ ؑ فرماتےہیں :۔

’’یعنی اگریہ نبی ہمارے پر افترا کرتا تو ہم اس کو دہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی وہ رگ کاٹ دیتے جو جان کی رگ ہے یہ آیت اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے معنوں میں عموم ہے جیسا کہ تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ بظاہر اکثر امرو نہی کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں لیکن اُن احکام میں دوسرے بھی شریک ہوتے ہیں یا وہ احکام دوسروں کے لئے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فرمایا کہ اگر وہ ہمارے پرکچھ افترا کرتا تو ہم اُس کو ہلاک کر دیتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ غیرت اپنی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اگر مفتری ہوتے تو آپ کو ہلاک کردیتا مگر دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے اور دُوسرے خواہ کیسا ہی خدا پر افتراء کریں اور جھوٹے الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں اُن کی نسبت خدا کی غیرت جوش نہیں مارتی۔ یہ خیال جیسا کہ غیر معقول ہے۔ ایسا ہی خدا کی تمام کتابوں کے بر خلاف بھی ہے اور اب تک توریت میں بھی یہ فقرہ موجود ہے کہ جو ؔشخص خدا پر افتراکرے گا اورجھوٹا دعویٰ نبوت کا کرے گا وہ ہلاک کیاجاوے گا۔ علاوہ اس کے قدیم سے علماء اسلام آیت لَوْ تَقَولَّ عَلَینَا کوعیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لئے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی بات میں عموم نہ ہو وہ دلیل کا کام نہیں دے سکتی۔ بھلا یہ کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر افترا کرتے تو ہلاک کئے جاتے اور تمام کام بگڑ جاتا لیکن اگر کوئی دوسرا افترا کرے تو خدا ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس سے پیار کرتا ہے اور اُس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ مُہلت دیتا ہے اور اُس کی نصرت اور تائید کرتا ہے اِس کا نام تو دلیل نہیں رکھنا چاہئے بلکہ یہ تو ایک دعویٰ ہے کہ جو خود دلیل کا محتاج ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ204تا206)

فرمایا:۔

’’مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افترا کرنا لعنتیوں کا  کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتاہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰؔ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ210)

یہ بھی ملاحظہ فرمائیں

آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا اور معیار صداقت ۔ ایک اعتراض کا جواب

اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے جس مدت کو معیار صداقت ٹھہرا یا ہے آپ خود اس پر …